1997ء میں ایشیائی کرنسی بحران میں مشرقِ بعید کے تمام ممالک خاص طور پر‘ اور دُنیا کے دیگر ممالک عام طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے متأثر ہوئے تھے، جنھیں آج کا پاکستان بروئے کار لاچکا ہے۔ اس بحران کا آغاز تھائی لینڈ سے ہوا۔ اس وقت کے تھائی لینڈ کا جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہوگا کہ ہم آج کے پاکستان کا جائزہ لے رہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی برآمدات، سالانہ پیداوار، غیرملکی سرمایہ کاری اور اس کی دوسری طرف معیشت پر بڑھتا ہوا قرض۔ غیر پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری، جن میں پراپرٹی، سٹاک ایکسچینج اور کرنسی کا سٹہ، ہاٹ ڈالر اور گَھٹتے ہوئے زرِ مبادلہ کے ذخائر قابلِ ذکر تھے۔ یہی حال انڈونیشیا اور فلپائن کا تھا۔ زرِمبادلہ کی بے پناہ طلب کو کم کرنے کی غرض سے مجبوری میں اُٹھایا گیا ایک قدم تھائی لینڈ کی معیشت کو لے ڈوبا۔ چناں چہ ’’تھائی بھات‘‘ کی قیمت کو مارکیٹ کی طلب اور رَسد کے حوالے کردیا گیا۔ اسے معاشی زبان میںFree Floatکہا جاتا ہے۔ اس عمل نے ایک مسلسل عمل کو جنم دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس گراوٹ کے عمل نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کے بعد تھائی لینڈ میں احتجاجی مظاہروں کے تناظر میں حکومت کو گھر جانا پڑا۔ انڈونیشیا میں سہارتو کی تیس سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوا۔ فلپائن کے صدر رَاموس کا بھی یہی انجام ہوا۔ البتہ ملائشیا کے مہاتیر محمد نے نہ صرف اس بحران کا مقابلہ کیا، بلکہ ملائشیا اس بحران سے نکلنے والا سب سے پہلا ملک بن گیا۔
اس بحران کے دوران اور بعد میں ملائشیا کے علاوہ تمام قابلِ ذکرمتأثرہ ممالک نے وہی کیا جوIMFنے انھیں کہا۔ بڑے بڑے اقدامات میں شرح سود میں بے پناہ اضافہ، ترقیاتی اخراجات میں زبر دست کمی، ٹیکسز میں ہوش رُبا اضافہ ، کرنسی میں شرم ناک گراوٹ اورIMFسے اربوں ڈالر کے قرضوں کی وصولی۔ چناں چہ تھائی لینڈ نے 20، انڈونیشیا نے 23 اور کوریا نے 35 ارب ڈالر ابتدائی دنوں میں حاصل کیا۔ اس دوران مہنگائی اور بے روزگاری نے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور ان ممالک میں موجود سیاسی حکومتیں زبردست عدمِ استحکام کا شکار رہیں، لیکن ملائشیا میں نہ تو حکومت گری اور نہ ہی معیشت۔ وقتی اضمحلال ضرور آیا، لیکن مضبوط اِرادے اور منفرد معاشی اقدامات اور سب سے بڑھ کرIMFسے دوری کی حکمتِ عملی ملائشیا کو بچا گئی۔ ملائشیا نے ترقیاتی اخراجات میں کمی نہیں کی، تاکہ بے روزگاری نہ بڑھے۔ ’’ملائیشیائی رِنگیٹ‘‘ کی قیمتFixکردی، تاکہ اس میں غیرمعمولی اُتار چڑھاؤ نہ ہونے پائے۔ شرح سود کو کاروبار کے موافق رکھا، تاکہ کاروباری نقصانات کے نتیجے میں دیوالیہ ہونے سے بچا جاسکے اور نتیجتاًبے روزگاری نہ بڑھے۔ یہ وقت ہے کہ ملائشیا جیسے اقدامات پاکستان بھی کرے، لیکن کیا کریں! ہمارے پاس نہ لیڈرشپ ویسی ہے، جو منفرد اور انقلابی فیصلے کرسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری مقتدرہ خود ہی مافیا بھی ہے۔ بھلا وہ کیوں ایک دن کا نقصان برداشت کرے۔ ان کی حکمرانی کمیشن ایجنٹی اور تقرری و تبادلے سے آگے نہیں بڑھی۔ دوسری طرف ہمارے مالیاتی نظام کا بڑا حصہ توIMFکے کنٹرول میں ہے۔ یہاںہوگا تو وہی جوIMFسرکار چاہے گی۔
Muhammad Kashif Sharif
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
Related Articles
قرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
پاکستان کو موجودہ مالی سال کے آمدہ چار ماہ میں قرضوں کی ادائیگی اور اپنی ضروریات کے لیے 10 ارب ڈالر کا اضافی قرض درکار ہے اور آمدہ مالی سال کے دوران انھی مدات میں 20 سے …
سیاسی طُفیلیے اور معاشی مسائل کا حل
بقا کے لیے جدوجہد ہر مخلوق کا خاصہ ہے۔ اور یہ معاملہ انسان کو درپیش ہو تو جدوجہد اجتماعیت کا رنگ لیے بغیر نہیں رہتی۔ اعلیٰ درجے کی اجتماعیت قائم کرنے کے لیے شعوری جدوجہد …
معاشی بقا میں آفت زدہ پاکستانیوں کا کردار
اگست 2022ء میں سب مشکل میں تھے۔ ڈالر اور مہنگائی بے لگام تھے۔ آئی ایم ایف سرکار نالاں تھی کہ پاکستان وعدہ خلاف ہے۔ اس تناظر میں سب سانس روک کر بیٹھے تھے کہ کہیں 1.2 ارب …
اور آئی ایم ایف پھر مان گیا
آئی ایم ایف کی عالمی حیثیت ایک بینک کی سی ہے، جس کا کام دیگر ممالک کو اس لیے قرض دینا ہے، تاکہ لین دین کا عالمی نظام اضمحلال کا شکار نہ ہونے پائے اور اس تناظر میں مقامی …