موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ملکی معاشی ڈھانچے میں بہتری اور اس کے نتیجے میں معاشی ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے کے بیانیے میں کتنی حقیقت ہے؟ اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے کچھ اعشاریوں کا تجزیہ کرنا پڑے گا۔ چناںچہ معیشت کے بڑے بڑے اعشاریے کہاں کھڑے ہیں اور گزشتہ بیس سالوں میں چار مختلف حکومتوں کے وسط مدتی اعشاریوں کی بنیاد پر ان میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں؟ ان سب کا جاننا اہم ہے۔ 2005، 2010، 2015 اور 2020ء میں ان اہم اعشاریوں کے لحاظ سے ہم کہاں کھڑے تھے؟ اس مضمون میں اس کا جائزہ پیش ہے:
1۔ادائیگیوں کا توازن: بین الاقوامی تجارت میں لین دین کا دار و مدار ملک میں فارن کرنسی کے ذخائر پر ہوتا ہے۔ اگر درآمدات پر محدود مدتی اُدھار بڑھ جائے تو ادائیگیوں کے توازن کو ناپسندیدہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس خلیج کو پاٹنے کے لیے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر اور بیرونی قرضوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ چناںچہ 2005ء میں -1.8 ارب ڈالر، 2010ء میں -3.9 ارب ڈالر، 2015ء میں -2.8 ارب ڈالر اور 2020ء میں -2.8 ارب ڈالر۔ اس میدان میں پاکستانی معیشت نے بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ اس کی وجہ درآمدات میں کمی، ترسیلاتِ زر میں اضافہ اور روپے کی قدر کا اپنی اصل کے قریب تر ہونا ہے۔ چناںچہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ 2020-21ء میں تاریخ میں پہلی دفعہ ادائیگیوں کا توازن مثبت 0.2 ارب ڈالرتک چلا جائے گا۔
2۔ روپے کی قدر: کسی بھی ملک کی کرنسی کی قدر کا انحصار وہاں کی بین الاقوامی تجارتی طاقت پر ہوتا ہے۔ اگر اس ملک کی مصنوعات کی طلب بیرونی دنیا میں زیادہ ہے تو اس ملک کی کرنسی کی قدر میں بھی اضافہ ہوگا۔ کسی بھی کرنسی کو خود سے ڈالر کے ساتھ قیمتاً روک دینا اور اسے اپنی مرضی سے اُپر نیچے کرنا دراصل ممکن تو ہے، لیکن یہ ایک مناسب طریقہ نہیں ہے۔ خصوصاً پاکستان جیسے ممالک کے مخصوص حالات میں یہ حکمتِ عملی کافی خطرناک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں پیداواری عمل مؤثر نہیں ہے اور خاص طور پر بہتر‘ یا ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی تیاری کے حوالے سے ہم بہت پیچھے ہیں۔ ڈالر کے ساتھ ملکی کرنسی کو قیمتاً روکنے کا عمل چین نے بہت مؤثر طریقے سے کیا ہے، لیکن اس کے پیچھے ایک بڑا اور متحرک پیداواری عمل موجود ہے، جس کی طلب پوری دنیا میں ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں حکومت نے کرنسی کی قیمت کے تعین کو طلب اور رَسد پر چھوڑ دیا ہے، جس کی وجہ سے پاکستانی روپیہ عالمی منڈی میں استحکام کی جانب گامزن ہے۔ یہ وہ حکمتِ عملی ہے، جسے گزشتہ ادوار میں کوئی حکومت بروئے کار نہیں لائی اور کرنسی کے استحکام کو حاصل کرنے کے لیے مقامی مارکیٹ میں ڈالر بیچنے کا مضحکہ خیز سلسلہ جاری رکھا۔چناںچہ 2005ء میں ڈالر60۔ 2010ء میں 85۔ 2015ء میں 101۔ اور 2020ء میں 167 روپے کا تھا۔
ڈالر کے خلاف روپے کا استحکام اسے مارچ 2021ء میں 157 روپے تک لے آیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان بیس سالوں میں پاکستانی روپیہ پہلی دفعہ مقابلہ کرتا ہوا نظر آرہا ہے، جو خوش آئند ہے۔
3۔ بین الاقوامی تجارت کا توازن: پاکستان کا تجارتی خسارہ 2005ء میں 4.4 ارب ڈالر کا تھا، جو 2010ء میں 11.5 ارب ڈالر، 2015ء میں 20.2 ارب ڈالر اور 2020ء میں 17.1 ارب ڈالر رہا۔ اب امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ 2021ء میں یہ مزید کم ہو کر 13.7 ارب ڈالر تک آجائے گا۔ ڈالر کے خلاف پاکستانی روپے کی مضبوطی کی ایک بڑی وجہ تجارتی خسارے میں کمی بھی ہے۔ اس میں اہم پہلو یہ ہے کہ اب حکومتِ پاکستان موبائل فونز، جاپانی گاڑیوں، کھانے پینے کی تیار اشیا اور دیگر تعمیراتی اور رفاہیتِ بالغہ سے متعلق اشیا پر درآمدی ٹیکسز میں اضافے سے سالانہ چار ارب ڈالر بچا رہی ہے، لیکن کرونا کی عالمی وبا کی وجہ سے خصوصاً ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی طلب میں کمی اور بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتیں ایک محدود وقتی خطرہ ہیں۔ جاری ہے۔۔۔
ٹیگز
محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
معاشی بقا میں آفت زدہ پاکستانیوں کا کردار
اگست 2022ء میں سب مشکل میں تھے۔ ڈالر اور مہنگائی بے لگام تھے۔ آئی ایم ایف سرکار نالاں تھی کہ پاکستان وعدہ خلاف ہے۔ اس تناظر میں سب سانس روک کر بیٹھے تھے کہ کہیں 1.2 ارب …
گھر بنانے کا خواب
پاکستان کی آبادی ہر سال چالیس لاکھ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ برصغیر کے تناظر میں یہ افغانستان کے بعد سب سے زیادہ شرح نمو ہے ۔ایسے ہی شہروں کی طرف نقل مکانی کی سب سے زیادہ …
ڈالر سے محبت ہی بہت ہے؟
پاکستان پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا حجم 410 کھرب روپے کے لگ بھگ ہوچکا ہے۔ ایک سال کے دوران اس میں اوسطاً 30 کھرب روپوں کا اضافہ ہو ہی جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے اخراجا…
عالمی مالیاتی بحران ابھی ٹلا نہیں
ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی، برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے جدید مالیاتی نظام کی بنیاد رکھی تھی۔ مشترکہ سرمائے کی طاقت سے ان کمپنیوں نے برصغیر، مشرقِ بعید اور چین میں سترہویں اور اٹھار…