اُمُّ المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا قبیلہ قریش سے تھیں۔ آپؓ کے والدین نے آپؓ کانام ’’برّہ‘‘ رکھا تھا۔ جب حضورؐ کے نکاح میں آئیں تو آپؐ نے ان کا نام بدل کر میمونہ رکھ دیا۔ حضرت میمونہؓ کا نکاح پہلے مسعود بن عمروبن عمیرثقفی سے ہوا، لیکن کسی وجہ سے علاحدگی اختیار کرنی پڑی۔ پھر ابورہم بن عبدالعزیٰ کے نکاح میں آئیں۔ ان کی۷ھ میں وفات کے بعد آپؓ حضوؐر کے نکاح میں آئیں۔ یہ آں حضرتؐ کا آخری نکاح تھا اور حضرت میمونہؓ سب سے آخری بیوی تھیں۔اسلامی تاریخ کے عظیم جرنیل خالدبن ولید حضرت میمونہؓ کے بھانجے تھے۔ آپؓ کی دیگر صحابہؓ کے ساتھ بھی رشتہ داریاں بنتی ہیں۔ آپؓ سے 46 حدیثیں مروی ہیں۔ سات صحیحین میں ہیں، جن میں بعض سے ان کی فقہی اور علمی بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ: ’’حضرت میمونہؓ خدا تعالیٰ سے بہت ڈرتیں اور صلہ رحمی کرتی تھیں‘‘۔ آپؓ کوغلام آزاد کرنے کا بہت شوق تھا۔ آپؓ غریبوں کی ہمدردی اور تعاون کرتی رہتی تھیں۔ اسی لیے کبھی کبھی قرض لیتی تھیں اور وہ رقم مستحقین میں تقسیم کردیتی تھیں۔ ایک بار زیادہ رقم قرض لی توکسی نے کہا کہ آپ اس کوکس طرح ادا کریں گی؟ فرمایا: حضوؐر کا ارشاد ہے کہ: ’’جوشخص قرض ادا کرنے کی نیت رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ خود اس کا قرض ادا کردیتا ہے‘‘۔ میں ضروری اُمور کی تکمیل کے لیے قرض لے رہی ہوں۔ میرا مقصد نیک ہے اور نیت ادائیگی کی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ ضرور بندو بست کردے گا‘‘۔
احکامِ نبویؐ کی تعمیل ہروقت حضرت میمونہؓ کے پیشِ نظر رہتی تھی۔ ایک دفعہ ان کی کنیز بدیہ‘ حضرت ابن عباسؓ کے گھر گئی تودیکھا کہ میاں بیوی کے بستر دور دور بچھے ہیں، خیال ہوا کہ شاید کچھ رنجش ہوگئی ہے، لیکن دریافت سے معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباسؓ (بیوی کے ایام کے زمانے میں) اپنا بستر ان سے الگ کرلیتے ہیں۔ کنیز نے آکر حضرت میمونہؓ کو یہ ماجرا سنایا تو آپؓ نے فرمایا: ’’ان سے جاکر کہو کہ رسول اللہؐ کے طریقے سے اس قدر کیوں اعراض ہے؟ آپؐ ہم لوگوں کے بچھونوں پر برابر آرام فرماتے تھے‘‘۔ (مسنداحمد) حضرت میمونہؓ دینی مسائل کی بہت بڑی عالمہ تھیں۔ ایک بار ایک عورت بیمار پڑی تواس نے منت مانی تھی کہ شفا ہونے پربیت المقدس جاکر نماز پڑھے گی۔ خدا کی شان کہ وہ صحت مند ہوگئی اور سفر کی تیاریاں شروع کیں۔ جب رخصت ہونے کے لیے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی تو حضرت میمونہؓ نے اُسے فرمایا: ’’تم یہیں رہو اور مسجد ِنبوی میں نماز پڑھ لو۔ کیوں کہ یہاں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مسجدوں کے ثواب سے ہزارگنا زیادہ ہے‘‘۔
حضرت میمونہ کا آپؐ سے نکاح مکہ سے 10 میل کے فاصلے پر مقامِ ’’سرف‘‘ میں ہوا تھا۔ عجیب اتفاق ہے کہ آپؓ کا انتقال بھی اسی جگہ پر ہوا۔ خود ہی فرمایا کہ: ’’مجھے مکہ سے لے چلو، کیوں کہ آپؐ نے فرمایا ہے کہ: ’’تیری موت مکہ میں نہیں ہوگی‘‘۔ اور اسی طرح ہوا کہ جیسے ہی ’’سرف‘‘ میں پہنچیں تو داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ حضرت ابن عباسؓ نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور قبر میں اُتارا۔ آپؓ کے سالِ وفات کے متعلق اگرچہ اختلاف ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ انھوں نے۱۵ھ میں وفات پائی۔
ٹیگز
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ - صحابہؓ کا ایمان افروز کردار
صحابہؓ کا ایمان افروز کردار حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ غزوۂ خیبر کے سال (۷ھ / 628ء) مسلمان ہوئے…
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری خزرجی رضی اللہ عنہٗ
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری خزرجی رضی اللہ عنہٗ ہجرتِ مدینہ سے 16 سال قبل پیدا ہوئے۔ آپؓ کے دادا عمرو بن حرام انصاری اپنے قبیلے کے سردار تھے۔ بیعتِ عقبہ ثانیہ کے وقت آپؓ اپنے…
حضرتِ اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوری قدس سرہٗ
حضرتِ اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوری قدس سرہٗ نقوشِ زندگی کا ایک مختصر خاکہ تحریر: مفتی عبدالخالق آزاد ٭ آپؒ کی پیدائش رجب 1344ھ / جنوری 1926ء کو حضرتِ اقدس…
اَندلُس کے علما و سائنس دان ؛شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی ؒ
بارہویں صدی عیسوی کے عبقری انسان، عظیم فلسفی، مفکر، محقق، صوفی، علوم کا بحرِ ناپیدا کنار، روحانی و عرفانی نظامِ شمسی کے مدار، اسلامی تصوف میں ’’شیخِ اکبر‘…