رپورٹ: سیّد نفیس مبارک ہمدانی، لاہور
11؍ ستمبر 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں جمعتہ المبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’علم انسانیت کے فائدے کا کب ہوتا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے علم کی نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب انسان کے پاس علم آتا ہے تو وہ ایک خاص قسم کی تعلّی اور تکبر پیدا کرتا ہے۔ جاہل کے مقابلے میں ایک عالم اپنے علم کے غرور میں مبتلا ہوتا ہے۔ جیسے جیسے وہ علم پڑھتا جاتا ہے، ویسے ویسے اس کی گردن اکڑنا شروع ہوجاتی ہے۔ وہ دوسرے انسانوں کو حقیر سمجھتا ہے، جو علم نہیں رکھتے۔ پھر وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ لوگ جو علم نہیں رکھتے، ان کو اپنے علم کی بنیاد پر جیسے چاہو بے وقوف بنا لو، لوٹ لو، مفادات حاصل کرو۔ اس طرح کا علم اور مہارت انسان کے اندر انسان دشمنی کا وصف پیدا کرتا ہے۔ اس سے باز رہنے کا طریقہ اور قانون و ضابطہ قرآن حکیم نے بتا دیا کہ صحیح علما اور اہلِ علم وہ ہیں، جن کے دلوں میں اللہ کی خشیت اور ڈر ہے۔ (القرآن 28:35) اللہ کا ڈر اور خشیت اُن کے علم کو انسانیت کے لیے مفید بناتی ہے۔ جو علم نہیں رکھتے، یا علم رکھتے ہیں اور اُن میں اللہ کی خشیت نہیں ہوتی، وہ علم فروش ہوتے ہیں۔ جیسے جہالت کی مذمت کی گئی ہے، ایسے ہی ایسے اُن اہلِ علم کی مذمت بھی کی گئی ہے، جو علم رکھنے کے باوجود اُس پر عمل نہیں کرتے۔
نبی اکرمؐ نے دنیا دار علمائے سُو کے بارے میں فرمایا کہ جب قوموں پر زوال آتا ہے تو ’’اُن کے علما آسمان کے نیچے زمین پر دنیا کی سب سے بدترین مخلوق ہوتے ہیں۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی: 1763) کیوںکہ جاہل کو تو ایک درجے میں اُس کی بے علمی سے کیے ہوئے عمل کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے کہ اُس نے اپنی جہالت کے سبب کوئی جرم یا کوئی غلطی کی، لیکن ایک عالم جو جانتے بوجھتے ہوئے اپنے علم پر عمل نہیں کرتا تو نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ دنیا میں کرۂ ارض پر اُس سے بدتر مخلوق کوئی اَور نہیں۔ وہ عالم اُس جاہل سے زیادہ بدتر ہے، جو اپنے علم پر عمل نہیں کرتا۔ ایک دین کا عالم، جس نے قرآن و حدیث پڑھا، اُسے پتہ چل گیا کہ کیا چیز حلال ہے اور کیا چیز حرام ہے۔ اور اس حلال و حرام کے باوجود وہ قرآن کے علم کو بیچتا ہے۔ فروخت کرتا ہے۔ اپنی دینی وجاہت کو سرمایہ پرستی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ خواہ وہ کسی فرقے کا ہو، کسی مذہب کا ہو، کسی دین سے تعلق رکھتا ہو، وہ دین فروشی کا سب سے بدترین کام کرتا ہے۔
یاد رکھیے! دنیا کے کسی شعبے سے متعلق علم کا ایک عالم، کوئی انجینئر، پروفیسر، ڈاکٹر، کوئی سیاست دان بھی اگر ناجائز طور پر اپنا علم فروخت کرتا ہے، اپنے علم کا غلط استعمال کرتا ہے، اپنے شعبے سے متعلق منفی کردار ادا کرتا ہے تو اُس کا دائرہ اس دنیا تک محدود ہے، لیکن جس نے دین فروشی کی، اس نے نہ صرف دنیا کا نقصان کیا، بلکہ آخرت کا نقصان بھی کیا۔ اس لیے وہ زیادہ بدتر، فتنہ پرور اور زیادہ انسان دشمن ہے۔ اس نے دنیا بھی بیچی، دین بھی بیچا اور آخرت بھی بیچی۔ دنیا میں انسانیت کی فلاح و بہبود بھی بیچی۔ اس کے لیے بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔‘‘
ٹیگز
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...