گزشتہ آیات (91 تا 93) میں یہ حقیقت واضح کی گئی تھی کہ یہودیوں کا تورات و انجیل کی تعلیمات پر ایمان کا دعویٰ علمی طور پر اس لیے غلط ہے کہ انھوں نے ان دونوں کتابوں کی تعلیمات کو پسِ پُشت ڈال دیا۔ انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے احکامات کی صریحاً خلاف ورزی کی اور اُس پر پختہ دل سے ایمان نہیں لائے۔
ان آیات (94 تا 96) میں یہودیوں کے دعوے کے غلط ہونے کی عملی دلیل پیش کی جا رہی ہے۔ الٰہی تعلیمات پر عمل کرنے والے لوگ آخرت میں کامیابی کے نظریے سے عمل کرتے ہیں۔ جو لوگ دنیا میں اپنے سچے فکر و عمل کو خالصتاً اللہ کے لیے کرتے ہیں، اور اس کا نتیجہ آخرت میں حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں، وہ کبھی موت سے نہیں ڈرتے۔ ان آیات میں کہا گیا ہے کہ اگر واقعی تم تورات و انجیل پر پختہ ایمان رکھتے ہو، تو اپنی موجودہ پستی اور ذِلت کی حالت سے نکلنے کے لیے دشمنوں کے خلاف جہاد کرکے موت کو گلے لگاؤ۔
قُلۡ إِن كَانَتۡ لَكُمُ ٱلدَّارُ ٱلۡأٓخِرَةُ عِندَ ٱللَّهِ خَالِصَةٗ مِّن دُونِ ٱلنَّاسِ ( کہہ دے کہ اگر ہے تمھارے واسطے آخرت کا گھر اللہ کے ہاں تنہا سوا اَ ور لوگوں کے ): یہود اپنے ایمان کے دعوے کی بنیاد پر کہا کرتے تھے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ نے صرف ہمارے لیے ہی جنت رکھی ہے۔ الٰہی تعلیمات کے حامل جب دین کی جامع تعلیمات پر پورے طور پر عمل نہیں کرتے تو ایسے ہی جھوٹے سچے دعوے کرکے اپنے لیے جنت ثابت کرتے ہیں۔ اللہ پاک نے اُن کے اس دعوے کی قلعی کھولتے ہوئے فرمایا:
فَتَمَنَّوُاْ ٱلۡمَوۡتَ إِن كُنتُمۡ صَٰدِقِينَ : (تو تم مرنے کی آرزو کرو اگر تم سچ کہتے ہو) یہاں موت کی تمنا کرنے سے مراد دینی تعلیمات کے مطابق جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ یعنی اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو تو آج تم جس ذلت اور رُسوائی کی زندگی بسر کر رہے ہو، اور مخالفوں کی غلامی کرنے پر مجبور ہو تو اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرو اور اللہ کے راستے میں لڑتے ہوئے موت قبول کر لو اور جنت میں داخل ہوجاؤ۔ اس لیے کہ جب کوئی آدمی اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے تو اس کے لیے موت قبول کرنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ انسانیت دُشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور حق کے غلبے کے لیے موت قبول کرنا نہیں چاہتا تو گویا اسے اپنے دین کی حقانیت پر پختہ ایمان اور یقین نہیں ہے۔ اگلی آیت میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے:
وَلَن يَتَمَنَّوۡهُ أَبَدَۢا بِمَا قَدَّمَتۡ أَيۡدِيهِمۡۚ (اور وہ ہرگز آرزو نہ کریں گے موت کی کبھی‘ بہ سبب ان گناہوں کے کہ بھیج چکے ہیں ان کے ہاتھ): وہ کبھی بھی اپنے خدا اور انسانیت دشمن اعمال کے سبب موت کا ایسا راستہ ہرگز اختیار نہیں کریں گے۔ وہ اپنے فکر و عمل میں تورات کی تعلیمات پر علمی کوتاہیوں اور بداعمالیوں کو خوب جانتے ہیں۔ انھوں نے اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کیے ہوئے معاہدے توڑے ہیں، انبیا علیہم السلام کو قتل کیا ہے، دین کی تعلیمات کو اپنی ذاتی برتری اور گروہی مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔ وہ اپنی ان بداعمالیوں کے نتائج سے بہ خوبی آگاہ ہیں۔ اس لیے وہ کبھی بھی جدوجہد کا راستہ اختیار کرکے موت کی تمنا نہیں کریں گے، بلکہ دین فروشی سے انھوں نے جو دولت کمائی ہے، اس سے زیادہ سے زیادہ اس دنیا میں عیاشی کرنا چاہیں گے۔ انھوں نے دنیا کی چند روزہ زندگی کی لذتوں اور خواہشوں کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دی ہوئی ہے۔ حقیقت میں وہ بہت ظالم ہیں۔
وَٱللَّهُ عَلِيمُۢ بِٱلظَّٰلِمِينَ (اور اللہ خوب جانتا ہے گناہ گاروں کو): اللہ تعالیٰ ان ظالموں کے ظلم و ستم اور خرابیوں کو اچھی طرح جانتا ہے کہ کیسے انھوں نے دین کی تعلیمات کو پسِ پُشت ڈالتے ہوئے پہلے خود اپنے بنی اسرائیلی بھائیوں کو دشمنوں کے ہاتھوں گرفتار کروایا، پھر کیسے انھیں رہا کرانے کے لیے ’’فدیہ‘‘ کے نام پر پیسے جمع کیے۔ انھوں نے کیسے انسانیت کا خون بہایا اور دینی اجتماعیت کے بنیادی عُمرانی معاہدات کی خلاف ورزی کی۔ جیسا کہ اس سورت کی گزشتہ آیات 84 و 85 میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
وَلَتَجِدَنَّهُمۡ أَحۡرَصَ ٱلنَّاسِ عَلَىٰ حَيَوٰةٖ وَمِنَ ٱلَّذِينَ أَشۡرَكُواْۚ (اور تُو دیکھے گا ان کو سب لوگوں سے زیادہ حریص زندگی پر اور زیادہ حریص مشرکوں سے بھی ): یہودی‘ موسوی تعلیمات پر عمل کے دعوے دار ہیں، حال آں کہ ہر ایک انسان جو اُن کے عملی کردار کا بہ خوبی مشاہدہ کرے تو اُسے وِجدانی طور پر اچھی طرح محسوس ہوجائے گا کہ یہود اور مشرکین تمام انسانیت سے زیادہ اس دنیا میں رہنے کے حریص اور لالچی ہیں۔
يَوَدُّ أَحَدُهُمۡ لَوۡ يُعَمَّرُ أَلۡفَ سَنَةٖ (چاہتا ہے ایک ایک ان میں کا کہ عمر پاوے ہزار برس): ان کی حالت تو یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک آدمی بھی ایسا نہیں ہے جو یہ نہ چاہتا ہو کہ کاش اُس کی عمر ہزار سال ہوجائے، تاکہ وہ خوب عیاشیاں کریں اور دوسرے انسانوں کی توہین و تذلیل کرکے اپنی جاہ پرستی اور مفاد پرستی کی تسکین کرتے رہیں۔
وَمَا هُوَ بِمُزَحۡزِحِهِۦ مِنَ ٱلۡعَذَابِ أَن يُعَمَّرَۗ وَٱللَّهُ بَصِيرُۢ بِمَا يَعۡمَلُونَ (اور نہیں اس کو بچانے والا عذاب سے اس قدر جینا، اور اللہ دیکھتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں): اُن کا لمبی عمر پا لینا اللہ کے عذاب سے انھیں ہرگز نہیں بچا سکتا۔ اس لیے کہ انھوں نے جس قدر جرائم کیے ہیں، اللہ اور اُس کے رسول کے احکامات کی خلاف ورزی کی ہے، انسانیت کو ستایا ہے، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں خوب جانتا ہے۔ یہ لوگ ضرور اُس کی گرفت میں آئیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تعلیماتِ الٰہیہ پر ایمان کا دعویٰ کرنے والی کسی بھی جماعت میں حق کے نظام کو غالب کرنے کا نظریہ نہ رہے، ان میں بزدلی اور کاہلی کا مرض پھیل جائے، وہ فرقہ وارانہ گروہیّتوں میں مبتلا ہوجائے اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو حق پر سمجھ کر جنت کا مستحق اور دوسرے فرقے کو جہنم کا مستحق سمجھنے لگے تو انھیں دنیا اور آخرت کی ذلت سے کوئی نجات نہیں دلا سکتا۔ اُن کا ایمانی دعویٰ جھوٹا ہوتا ہے۔ اس طرح کے غلط نظریات رکھنے والے اور بدعملی کا شکار لوگ ظالموں اور غاصبوں کے خلاف جدوجہد اور کوشش نہیں کرتے اور دوسروں کی غلامی میں سیاسی اور معاشی ذلت میں مبتلا رہتے ہیں۔
ٹیگز
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
افتتاحی تقریب ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور، پشاور کیمپس
اِدارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کا 2001ء سے شروع ہونے والا سفر کراچی، سکھر، صادق آباد، ملتان اور راولپنڈی کی منزلیں طے کرتا ہوا پشاور آ پہنچا ہے! الحمدللہ علیٰ ذالک…
ترقی یافتہ سرمایہ دار
گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی وزیراعظم نے آمدہ سال کو ترقی کا سال قرار دیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ صنعتی پیداوار، بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر اور برآمدات میں اضافہ بتایا جارہا ہے۔ ا…
ابو عمارہ، سیّدِ شہدا ء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ
ابو عمارہ، سیّدِ شہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ مہاجرینِ اوّلین میں سے ہیں۔ آپؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا، رضاعی بھائی اور آپؐ سے صرف دو سال بڑے تھے، گویا آپؐ کے ہم عمر تھے۔ حضرت ح…
شائقینِ علومِ ولی اللّٰہی کے لیے عظیم خوش خبری
رحیمیہ مطبوعات لاہور کی طرف سے شائقینِ علومِ ولی اللّٰہی کے لیے عظیم خوش خبری تصنیفاتِ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تحقیق و شرح کے ساتھ عمدہ اشاعت حضرت اقد…