ٹھوس علم اور درست طریقۂ تعلیم

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
ستمبر 01, 2020 - خطباتِ جمعتہ المبارک
ٹھوس علم اور درست طریقۂ تعلیم

7؍ اگست 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں جمعتہ المبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: 
’’آج سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہم انجینئرنگ کے علم کو علم سمجھتے ہیں۔ فزکس اور کیمسٹری کو ایک علم سمجھتے ہیں۔ میڈیکل سائنسز کو ایک علم سمجھا جاتا ہے اور بڑے ذوق شوق سے اس علم کے حصول کی طرف اپنی نوجوان نسل کو متوجہ بھی کرتے ہیں اور پڑھتے پڑھاتے بھی ہیں، لیکن کس قدر افسوس ہے کہ علومِ نبوت کو علم نہیں سمجھا جاتا۔ یہ دورِ زوال کی سب سے بڑی لعنت ہے، جو آج ہم پر مسلط ہے۔ کسی آدمی کو اُردو میں کوئی دو چار دینی مسئلے سمجھ آگئے، یا اسلام کی نماز روزہ کی کوئی عمومی باتیں اُس نے پڑھ لیں، یا کوئی پانچ چھ نمبر بیان کرنے آگئے تو وہ اپنے آپ کو دینی علم کا علامہ سمجھتا ہے۔ اب وہ جو چاہے لوگوں کے سامنے دینِ اسلام کے نام پر گفتگو کرے، ممبرِ رسولؐ پر بیٹھ کر جو مرضی زبان سے نکالے، فرقہ واریت پھیلائے، آگ لگائے، مفادات اٹھائے، شکل و شباہت عالموں کی بنا لے، اب اس علامہ صاحب کے خلاف کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔ 
دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں، کالجز، ہمارے مدارس، مسجدیں اور ہماری خانقاہیں علم کا محض تعارف کراتی ہیں۔ ٹھوس علم نہیں سکھاتیں۔ جب سے سمسٹر سسٹم آیا ہے، اس نے تو ویسے ہی علم کی صلاحیت اور استعداد ختم کر کے رکھ دی ہے۔ ایک سمسٹر میں بڑی مشکل سے چار مہینے پڑھاتے ہیں۔ اس میں ایک کتاب یا ایک شعبۂ علم سے متعلق ابتدائی تعارف کرایا جاتا ہے۔ ٹھوس علم نہ اُستاد کے پاس ہوتا ہے اور نہ شاگرد کے پاس۔ علم کے تمام پہلوؤں کا بڑا گہرا تعلق پریکٹیکل کے ساتھ ہوتا ہے۔ محض نظریات و افکار رَٹ لینے سے علم حاصل نہیں ہوتا۔ آپ میں وہ علم تب رچے بسے گا کہ جو کچھ پڑھا ہے، اس کا پریکٹیکل بھی کریں۔ اس علم کے استعمال کرنے میں اگر کوئی غلطی ہو تو اُسے اساتذہ اور ماہرین کی صحبت میں سیکھا جائے۔ لیکن یہاں تو استاد بھی کرائے کا ہوتا ہے۔ آدھا پونا گھنٹہ لیکچر دینے کے لیے آتا ہے کہ اس کے پیسے لینے ہیں اور بس۔ طالبِ علموں کو سمجھ میں آئے یا نہ آئے، وہ اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا۔ استاد سے سوال کرنا تو ہمارے تعلیمی اداروں میں جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ استاد کے سامنے بدتمیزی شمار ہوتا ہے کہ آپ سوال کرکے بات سمجھنا چاہتے ہیں۔ 
الحمدللہ! مجھے اس ملک کی تقریباً تمام یونیورسٹیوں میں خطاب کرنے کا موقع ملا ہے۔ طلبا اور اساتذہ سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ وہاں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کوئی سوال کرسکے۔ یہ تو سکولوں اور کالجوں اور یونیورسٹیوںکا حال ہے۔ مدرسوں میں بھی علما اور مفتیانِ کرام کا تقدس آڑے آتا ہے۔ وہاں تو مذہب کے نام سے تقدس کی ایک اَور چادر بھی چڑھی ہوئی ہوتی ہے کہ آپ سوال نہیں کرسکتے۔ بھائی! جب سوال نہیں کریں گے تو بات کیسے سمجھ میں آئے گی؟ علم کیسے منتقل ہوگا؟ آج ہماری یونیورسٹیوں، کالجز اور مدارس میں عام طور پر علم نام کی چیز نہیں رہی۔ جہالت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ڈگریاں ہیں، علم  نہ دارد۔ یاد رہے کہ جن قوموں کے پاس ٹھوس علم نہیں ہوتا، وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتیں۔‘‘ 

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...