امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’جب طہارت اور اخبات کے دونوں خُلق باہم جمع ہوجائیں تو شارع (نبی اکرم ﷺ) نے اسے ’’ایمان‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا:
’’الطُّہُور شَطْرُ الإیمان‘‘(طہارت ایمان کا ایک حصہ ہے)۔ (مسلم: 534)
اسی طرح آپؐ نے طہارت کی حالت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’إنّ اللّٰہ نظیفٌ یُحِبّ النَّظافۃ‘‘۔ (ترمذی: 2799)
(اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاکی کو پسند کرتا ہے)۔
آپ نے دوسرے خُلق (اِخبات) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’الإحسان أن تعبُد اللّٰہ کأنّک تراہ فإن لم تکن تراہ فإنّہ یراک‘‘(احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی ایسے عبادت کرو گویا کہ تم اُسے دیکھ رہے ہو۔ پس اگر تم اُسے دیکھ نہ رہے ہو (یہ خیال رکھو کہ) بے شک اللہ تعالیٰ تمھیں دیکھ رہا ہے)۔ (متفق علیہ، مشکوٰۃ: 2)
ان دونوں کے اَخلاق کے مجموعے پر مشتمل ’’سکینت‘‘، ’’وسیلہ‘‘ اور ’’ایمان‘‘ حاصل کرنے کا عمدہ ترین طریقہ یہ ہے کہ انبیا علیہم السلام کی طرف سے بیان کردہ احکاماتِ شرعیہ کی پابندی کی جائے۔ اسی کے ساتھ اُن اعمال کی حقیقی روح اور اُن کے انوارات کا پورا پورا لحاظ رکھا جائے اور انھیں کثرت سے کیا جائے۔ اُن اعمال کے بتلائے ہوئے طریقے اور اُن میں (حضوؐر کے بتلائے ہوئے) ذکر و اذکار کی پوری رعایت رکھی جائے۔
(طہارت کی روح) طہارت کی روح یہ ہے کہ:
(1) وہ ایک باطنی نور ہے۔
(2) اُنس و محبتِ الٰہی اور شرح صدر کی حالت کا نام ہے۔
(3) ذہن میں گڑبڑ پیدا کرنے والے افکار کا خاتمہ کرنا ہے۔
(4) ذہنی تشویشات، دلی قلق، فکری انتشار، تنگ دلی اور گھبراہٹ کی اشتعال انگیزی سے دور رہنا ہے۔
(نماز کی روح) نماز کی روح یہ ہے کہ:
(1) اللہ تعالیٰ کی معیت میں حضوری کی حالت پیدا کرنا۔
(2) عالَمِ جَبَرُوت کی طرف متوجہ رہنا۔
(3) اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظمت و جلال کو محبت اور اطمینان کی حالت میں یاد رکھنا۔
(4) نبی اکرمﷺ نے احسان سے متعلق حدیث میں بھی اسی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
(5) نماز کی روح پیدا کرنے کے لیے نماز میں ان احادیث کے معنی کی مشق کی جائے:
(الف) آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
’’میں نے نماز اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کردی ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے، جو وہ مجھ سے سوال کرتا ہے۔
جب بندہ کہتا ہے: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’حَمِدَنِیْ عَبْدِیْ‘‘(میرے بندے نے میری تعریف کی)۔
پھر جب بندہ کہتا ہے : الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِتو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:’’أثنیٰ علیّ عبدی‘‘(میرے بندے نے میری تعریف کی)۔
جب میرا بندہ کہتا ہے کہ:مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِتو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :مَجَّدَنِیْ عَبْدِیْ(میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی)۔
جب بندہ عرض کرتا ہے :اِیّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُتو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’ھٰذَا بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ و لعبدی ما سأل‘‘ (یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان نصف نصف ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے، جو اُس نے سوال کیا)۔
جب بندہ کہتا ہے:’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم، صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ‘‘تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ھٰذَا لِعَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَألَ‘‘(یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو اس نے مانگا ہے)۔
اس حدیث میں نبی اکرمؐ نے اس حکم کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ نماز میں جب بندہ کوئی کلمہ ادا کرے تو اللہ کی طرف سے دیے گئے جواب کا بھی لحاظ رکھے۔ اس طرح انسان میں اللہ کے سامنے حضوری کی کیفیت بہت زیادہ پیدا ہوتی ہے۔
(ب) نبی اکرمؐ نے اپنی تہجد کی نماز میں کچھ دعائیں پڑھی ہیں۔ انھیں حضرت علیؓ وغیرہ صحابہؓ نے روایت کیا ہے۔ ان دعاؤں کے معنی کا لحاظ رکھ کر انھیں پڑھے۔
(آپﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے۔
پھر ثنا وغیرہ دعائیں پڑھتے تھے۔ جب رکوع میں جاتے تو یہ پڑھتے:
’’اللّٰہُمَّ لَکَ رَکَعْتُ، وَ بِکَ آمَنْتُ، وَ لَکَ أَسْلَمْتُ، خَشَعَ لَکَ سَمْعِیْ، وَ بَصَرِیْ، وَ مُخِّیْ، وَ عَظَمِیْ، وَ عَصَبِیْ‘‘۔
جب رکوع سے سر اُٹھاتے تو یہ پڑھتے:
’’اللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْ ئَ السَّمَاوَاتِ، وَ مِلْ ئَ الأرْضِ، وَ مِلْ ئَ مَا بَیْنَہُمَا، وَ مِلْ ئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ‘‘۔
جب سجدے میں جاتے تو یہ دعا پڑھتے:
’’اللّٰہُمَّ لَکَ سَجَدْتُّ، وَ بِکَ آمَنْتُ، وَ لَکَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْہِیْ لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَ صَوَّرَہٗ، وَ شَقَّ سَمْعَہٗ وَ بَصَرَہٗ، تَبَارَکَ اللّٰہُ أحْسَنُ الْخَالِقِیْن‘‘۔
پھر تشہد اور سلام کے درمیان یہ دعا پڑھتے:
’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ مَا قَدَّمْتُ وَ مَا أَخَّرْتُ، وَ مَا أَسْرَرْتُ وَ مَا أَعْلَنْتُ، وَ مَا أَسْرَفْتُ، وَ مَا أَنْتَ أَعَلَمُ بِہِ مِنِّی، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَ أَنْتَ المُؤَخِّرُ، لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنتَ‘‘(مسلم: 1812، ترمذی: 3421)۔
)من أبواب الإحسان، باب(1): علمُ الشّرائع و الإحسان(
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
چاروں اَخلاق کے حصول کے لیے مسنون ذکر و اَذکار (2)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’(اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے مسنون ذکر و اذکار کی اہمیت پر چوتھی حدیث:)…
چاروں اَخلاق کے حصول کے لیے مسنون ذکر و اَذکار
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جب تم نے (ان چاروں اَخلاق؛ طہارت، اِخبات، سماحت اور عدالت کے) اصول ج…
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اَذکار - حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اَذکار (3) امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (5۔ اللہ سے دعا کرنا او…
چاروں اَخلاق کے حصول کے لیے مسنون ذکر و اَذکار (3)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’(اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے مسنون ذکر و اذکار کی اہمیت پر چھٹی حدیث:) …