سوسائٹی کے افتراق و انتشار کا سبب ؛ پست علوم و افکار

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
نومبر 10, 2023 - دروس القرآن الحکیم
سوسائٹی کے افتراق و انتشار کا سبب ؛ پست علوم و افکار

سورت البقرہ کی آیت 102 (حصہ اوّل) میں بنی اسرائیل نے شیطانی قوتوں سے انسان دشمن علم سیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کیا ہوا تھا، جو سراسر غلط اور خلافِ حقیقت ہے۔ انبیا علیہم السلام اس طرح کے پست علوم نہیں سکھاتے۔

اسی آیت کے اس دوسرے حصے میں ایسے ساحرانہ علوم اور مخلوط افکار و خیالات کے انسانی سوسائٹی پر پڑنے والے بُرے اثرات کی نوعیت واضح کی جا رہی ہے:

﴿فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ﴾ 

(پھر ان سے سیکھتے وہ جادو جس سے جدائی ڈالتے ہیں مرد میں اور اس کی عورت میں) :

بنی اسرائیل کے لوگ شیاطین اور فرشتوں دونوں سے مِلا جُلا کر جادو کا ایسا علم سیکھتے تھے کہ جس سے خاندانی نظام میں میاں بیوی کے درمیان افتراق و انتشار پیدا ہوتا تھا۔

انسانی معاشرے کی بنیادی اکائی خاندانی نظام ہے اور اس کی اَساس میاں بیوی کے درمیان باہمی محبت اور تعلق پر ہے۔ دونوں کے تعلقات درست ہوں تو اولاد کی پرورش، خاندانی رشتوں کے درمیان باہمی احترام، رشتہ داروں کے حقوق اور سوسائٹی میں موجود دیگر خاندانوں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار ہوتے ہیں، لیکن جس سوسائٹی میں میاں بیوی کے جھگڑوں کے نتیجے میں فیملی سسٹم تباہ و برباد ہوجائے، وہ معاشرہ اپنی اجتماعی زندگی میں منتشر ہو کر بکھر جاتا ہے۔ اس کی سیاسی اور معاشی طاقت باہمی اختلافات کا شکار ہو کر ختم ہوجاتی ہے۔ انبیا علیہم السلام کی سچی تعلیمات انسانوں کو دنیا اور آخرت میں زندگی بسر کرنے کا صحیح سلیقہ اور طریقہ سکھاتی ہیں۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسولوں نے میاں بیوی کے باہمی حقوق کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

انبیا علیہم السلام کی تعلیمات کے برعکس سِفلی علوم و افکار، شیطانی تگ و تازپر مبنی اعمال، انسانوں کے درمیان خود غرضی، مفاد پرستی اور نفسانی خواہشات کو اُبھار کر انسانی اجتماعیت کو توڑنے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں شیطانِ اکبر ابلیس سمندروں پر اپنا تخت بچھا کر اپنے شطونگڑوں کو انسانوں کے درمیان لڑائی جھگڑوں اور انھیں گناہوں میں مبتلا کرنے کے لیے بھیجتا ہے۔ جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایک شیطان‘ ابلیس سے کہتا ہے: ’’مَا تَرَکْتُہُ حَتّٰی فَرَّقْتُ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ امْرَأَتِہِ، قَالَ: فَیُدْنِیہِ مِنْہُ، وَیَقُولُ: نِعْمَ أَنْتَ‘‘۔ (صحیح مسلم، حدیث: 7106)  (میں نے اس شخص کو (جس کے ساتھ میں تھا) اس وقت تک نہیں چھوڑا، یہاں تک کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق کرادی۔ ابلیس اس کو اپنے قریب کرتا ہے اور کہتا ہے: تم سب سے بہتر ہو۔)

 ﴿وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ ﴾  اور وہ اس سے نقصان نہیں کرسکتے کسی کا بغیر حکم اللہ کے۔ اور سیکھتے ہیں وہ چیز جو نقصان کرے ان کا، اور فائدہ نہ کرے):

بنی اسرائیل کی مزید خرابی بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ انسانیت کو نقصان پہنچانے والے علوم و افکار سیکھنے کی طرف بڑی توجہ کرتے تھے۔ ایسے پست علوم کسی صورت انسانیت کے نفع اور بھلائی کے نہیں ہوتے۔

حضرت شیخ الہندؒ فرماتے ہیں: ’’سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے علموں سے آخرت کا کچھ نفع نہیں، بلکہ سراسر نقصان ہے اور دنیا میں بھی ضرر ہے اور بغیر حکم خدا کے کچھ نہیں کرسکتے اور علم دین اور علم کتاب سیکھتے تو اللہ کے ہاں ثواب پاتے‘‘۔

انسانی معاشروں میں جب فکری اور عملی گمراہیاں پیدا ہوجاتی ہیں تو اُن کا علمی مزاج بھی بگڑ جاتا ہے۔ ان کے پیش نظر انسانیت کو نقصان پہنچانے والے علوم سیکھنا سکھانا اور غلامی پر مبنی نظامِ تعلیم و تربیت کو قبول کرلینا ہوتا ہے۔ سامراجی اور طاغوتی قوتوں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ انسانوں کو غلام رکھنے کے لیے اپنے مطلب کے غلط افکار و خیالات پر مبنی نظامِ تعلیم بناتے ہیں اور اس طرح معاشروں میں افتراق و انتشار پیدا کرکے ڈیوائڈ اینڈ رول (لڑاؤ اور حکومت کرو) کی سیاست کو فروغ دیتے ہیں۔

﴿وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴾ (اور وہ خوب جان چکے ہیں کہ جس نے اختیار کیا جادو کو، نہیں اس کے لیے آخرت میں کچھ حصہ، اور بہت ہی بُری چیز ہے، جس کے بدلے بیچا انھوں نے اپنے آپ کو، اگر ان کو سمجھ ہوتی) : حضرت شاہ محمداسماعیل شہیدؒ اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ: ’’یہودیوں نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علوم کو پس پشت ڈال دیا اور شیطانوں اور فرشتوں سے ایسے زائد علوم حاصل کرنے میں لگ گئے، جن کا آخرت کی کامیابی میں کوئی عمل دخل نہیں تھا‘‘۔ (ایضاح الحق الصریح)

یہ حقیقت بنی اسرائیل کے لوگ جان چکے کہ انھوں نے الٰہی تعلیمات پر مبنی بلند علوم و افکار کے بدلے میں جادو وغیرہ پر مبنی ایسے پست افکار و خیالات خرید لیے ہیں، جن کا دنیا اور آخرت میں کوئی فائدہ نہیں۔ اس طرح انھوں نے اپنے لیے بہت ہی بُرا سودا کیا ہے۔ جو معاشرے ترقی کن بلند علوم و افکار کو قبول نہیں کرتے اور سطحی مفادات کے لیے سِفلی علوم اور گروہی مفادات پورا کرنے کی طرف اپنے ذہنوں اور خیالات کو متوجہ کرلیتے ہیں تو اس طرح نفع کا سودا کرنے کے بجائے اجتماعی نقصان اُٹھاتے ہیں۔

﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ﴾ (اور اگر وہ ایمان لاتے اور تقویٰ کرتے تو بدلہ پاتے اللہ کے ہاں سے بہتر اگر ان کو سمجھ ہوتی): حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ کتابِ الٰہی کے اعلیٰ علوم پر پختہ ایمان و یقین رکھتے اور اللہ سے ڈر کر عدل و انصاف قائم کرنے کی جدوجہد اور کوشش کرتے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا اور آخرت میں بہت اچھا بدلہ پاتے۔  اُن کے لیے دنیا میں بھی خیر اور بھلائی کا نظام قائم ہوتا اور آخرت میں بھی خیر کے اعلیٰ مقام جنت الفردوس میں داخل ہوتے۔ کاش کہ ایسی پستی میں پڑے ہوئے لوگوں کو یہ حقیقت سمجھ میں آجاتی اور بلند افکار و خیالات پر مبنی علم و شعور حاصل کرکے الٰہی تعلیمات کا علمی اور عملی نظام قائم کرتے اور دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوتے۔

ٹیگز
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

ادارہ رحیمیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کیمپس کا افتتاح

۲۱؍ ربیع الثانی ۱۴۴۰ھ / 7؍ دسمبر 2020ء بروز پیر وہ بابرکت دن تھا، جب ٹوبہ ٹیک سنگھ میں جناب ڈاکٹر محمدعنبر فرید اور اُن کے خاندان کی عطیہ کردہ جگہ پر ادارہ رحیمیہ علومِ قر…

انیس احمد سجاد جنوری 08, 2021

قرآن حکیم کی تعلیم و تربیت

18؍ دسمبر 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ میں 17 روزہ دورۂ تفسیرِ قرآن کے افتتاح کے موقع پر خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا: &…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جنوری 09, 2021

ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کا قیام و پس منظر، بنیادی مقاصد، تعلیمی و تربیتی سرگرمیاں

ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کا قیام ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ)ایک دینی، تعلیمی اور تربیتی مرکز ہے۔ یہ اپنی وقیع علمی حیثیت اور دین اسلام کے نظامِ فکروعمل کی شعوری تر…

ایڈمن فروری 10, 2021

مذہب لڑائی کا ذریعہ نہیں ہے

’’1920ء کے بعد دنیا نے یہ طے کرلیا کہ ریاستیں قومی تناظر میں وجود میں لائی جائیں گی۔ قوم کی جان، مال، رنگ، نسل، مذہب کا تحفظ ہوگا اور جمہوری اور ادارتی بنیاد…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جولائی 07, 2020