سیاسی طُفیلیے اور معاشی مسائل کا حل

محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف
اکتوبر 10, 2022 - معاشیات
سیاسی طُفیلیے اور معاشی مسائل کا حل

بقا کے لیے جدوجہد ہر مخلوق کا خاصہ ہے۔ اور یہ معاملہ انسان کو درپیش ہو تو جدوجہد اجتماعیت کا رنگ لیے بغیر نہیں رہتی۔ اعلیٰ درجے کی اجتماعیت قائم کرنے کے لیے شعوری جدوجہد کا ہونا لازم ہے۔ انسانی کاوشوں کے علاوہ ارد گرد کے حالات و واقعات دراصل شعوری جدوجہد کے لیے مہمیز کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہماری مقتدرہ نے اپنی نااہلی اور مفاد پرستی کے جو جھنڈے گاڑے ہیں اور جس یکسوئی کے ساتھ معاشی تباہی کو ممکن بنایا ہے، اس نے قوم کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ اس مثالی گراوٹ اور پے در پے آفتوں کی یلغار نے گویا عام آدمی کی کمر ہی توڑ کر رکھ دی ہے۔ اس پر طُرّہ یہ کہ آئے دن نت نئے طریقوں سے انواع و اقسام کے ٹیکسوں کا اجرا، دوسری طرف طاقت ور حلقوں کی لوٹ مار سے اُن کی مستقل خوش حالی اور ترقی کی داستانوں نے کھیل کافی حد تک واضح کر دیا ہے۔

دراصل یہ طریقۂ واردات متعدد دفعہ دہرایا جاچکا ہے۔ ہماری سیاسی اشرافیا کی ابتدا  اور بقا دونوں دراصل ہمہ مقتدر اسٹیبلشمنٹ کی مرہونِ منت رہی ہے، لیکن ایک سیاسی ملازم کو نوکری ملنے اور دوسرے کو نکالے جانے کا یہ کھیل اور بعد ازاں نکالے جانے والے کی جانب سے گریہ زاری کا دلچسپ و تکلیف دہ سلسلہ پچاس، ستر، نوے، بیس کی دہائیوں میں اتنی بار دُہرایا گیا ہے کہ اب ہر پاکستانی اس معاملے میں نجومی بن چکا ہے۔

 نوکری سے نکالے جانے والے قومی لیڈر ملازمت پر واپس جانے کے لیے سراپا احتجاج ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے پاس پاکستان کی تمام معاشی مشکلات کا حل ہے۔ جیسے وہ پہلے کررہے تھے، ویسے ہی کام آگے بڑھائیں گے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اگر انھیں نوکری سے نہ نکالا جاتا، اُس صورت میں بھی ملکی معیشت ایسے ہی حالات سے گزرتی، جیسے موجودہ تیس مار خان حکومت کے ذیل میں گزر رہی ہے۔ پہلے والوں کی غلطی یہی تھی کہ انھوں نے آقا کی بات ماننے پر لیت و لعل کا مظاہرہ کیا اور وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہی ملک کے حقیقی لیڈر ہیں، لیکنIMFکی حالیہ رپورٹ نے ان کی اس گستاخی کا برملا اظہار کردیا ہے، گویا چارج شیٹ کردیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پہلی دفعہ ہمارے سیاسی لیڈران کے نشانے پر آئی ہے۔ ایسا حالیہ دہائیوں میں کئی دفعہ ہوچکا ہے۔ وسائل اور حکمتِ عملی کے میدان میں کوئی سیاسی لیڈر ہماری ہمہ مقتدر اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ یہاں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ مسئلہ یہ ہے کہ نظام کی پیداوار ہمارا یہ ہر دل عزیز عوامی لیڈر جب اسی نظام کے ہاتھوں ناکام ہوگا تو پھر کیا ہوگا۔ اُس وقت یقینا پاکستانی عوام کا اجتماعی شعور مزید بلند ہوچکا ہوگا اور اس بار ان کے مسائل کے حل کے لیے وہ کسی روایتی سیاسی طُفیلیے کو یکسر ردّ کردیں گے۔اور نصف صدی سے جاری اس دھینگا مشتی کے طے شدہ اعادے کو بدلنا ہوگا۔ جو کم از کم ہماری ہمہ مقتدر اسٹیبلشمنٹ کے بس کی بات نہیں، کیوں کہ آقا نے انھیں درخت پر چڑھنا نہیں سکھایا تھا۔

 

محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف

محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA  اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

قرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

پاکستان کو موجودہ مالی سال کے آمدہ چار ماہ میں قرضوں کی ادائیگی اور اپنی ضروریات کے لیے 10 ارب ڈالر کا اضافی قرض درکار ہے اور آمدہ مالی سال کے دوران انھی مدات میں 20 سے …

محمد کاشف شریف مارچ 18, 2022

معاشی بقا میں آفت زدہ پاکستانیوں کا کردار

اگست 2022ء میں سب مشکل میں تھے۔ ڈالر اور مہنگائی بے لگام تھے۔ آئی ایم ایف سرکار نالاں تھی کہ پاکستان وعدہ خلاف ہے۔ اس تناظر میں سب سانس روک کر بیٹھے تھے کہ کہیں 1.2 ارب …

محمد کاشف شریف نومبر 14, 2022

1997ء ایشیائی کرنسی بحران میں پاکستان کے لیے سبق

1997ء میں ایشیائی کرنسی بحران میں مشرقِ بعید کے تمام ممالک خاص طور پر‘ اور دُنیا کے دیگر ممالک عام طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے متأثر ہوئے تھے، جنھیں آج کا پاکستان ب…

محمد کاشف شریف جون 11, 2022

ڈالر سے محبت ہی بہت ہے؟

پاکستان پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا حجم 410 کھرب روپے کے لگ بھگ ہوچکا ہے۔ ایک سال کے دوران اس میں اوسطاً 30 کھرب روپوں کا اضافہ ہو ہی جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے اخراجا…

محمد کاشف شریف فروری 11, 2022