وَاستَعينوا بِالصَّبرِ وَالصَّلاةِ ۚ وَإِنَّها لَكَبيرَةٌ إِلّا عَلَى الخاشِعينَ
الَّذينَ يَظُنّونَ أَنَّهُم مُلاقو رَبِّهِم وَأَنَّهُم إِلَيهِ راجِعونَ(45-46:2)
(اور مدد چاہو صبر سے اور نماز سے۔ اور البتہ وہ بھاری ہے، مگر انھی عاجزوں پر، جن کو خیال ہے کہ وہ روبرو ہونے والے ہیں اپنے ربّ کے۔ اور یہ کہ اُن کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔)
گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل کی کھلی اور واضح خرابیاں اِجمالی طور پر بیان کی گئی ہیں۔ ان آیات میں ان خرابیوں سے نجات اور صحیح فکر و عمل پر استقامت کا طریقہ بتلایا جا رہا ہے۔ ایمان کے بعد صبر و استقامت اور خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ سے تعلق قائم کرنے سے انسان ان خرابیوں اور بُرائیوں سے نجات حاصل کرلیتا ہے۔
وَاستَعينوا بِالصَّبرِ وَالصَّلاةِ ۚ : جو آدمی اپنے غلط فکر و عمل سے رجوع کرکے صحیح راستے پر آنا چاہتا ہے، تو اُسے صبر و استقامت اور نماز کی پابندی کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ جب کوئی آدمی اپنی بُری حالت کو بدلنا چاہے اور ایسا فکر و عمل، صحیح نظریہ اور عملی طریقۂ کار اختیار کرنا چاہتا ہے تو اُس کے راستے میں بڑی مشکلات کھڑی ہوجاتی ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ ماضی میں کی گئی غلطیوں اور گناہوں سے رجوع کرے، لیکن بسا اوقات ظالم قوتیں اُس پر جھپٹتی ہیں اور اُس کا سماجی بائیکاٹ کیا جاتا ہے، جس سے اس کی معیشت کا نظام خراب ہوجاتا ہے۔ اُسے اپنی زندگی کی ضروریات کو حاصل کرنے میں بڑی مشقت اُٹھانی پڑتی ہے۔ ایسے ماحول میں جو آدمی پختہ طور پر اپنی ماضی کی حالت کو بدلنے کے لیے تیار ہے تو اُسے ان مصائب پر صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اُسے ان مشکلات کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ وہ صبر اور نماز کے ذریعے سے اللہ سے مدد طلب کرے۔ اس لیے کہ حق پر صبر و استقامت سے انسان میں ثابت قدمی پیدا ہوتی ہے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد اور کامل وسیلہ صرف نماز ہے۔
صبر کا لغوی معنی ہمت سے کام لینا اور ڈٹ جانا ہے۔ اس کی تین صورتیں ہیں:
1۔ ’’صبر علٰی الطّاعات‘‘ (نیکیوں پر جماؤ)؛ یعنی ’’البِرّ‘‘ کے اُصول پر جن نیکیوں کا حکم دیا گیا ہے، اُن پر استقامت کے ساتھ عمل کرنااور صحیح فکر و عمل پر جماؤ اختیار کرنا۔
2۔ ’’صبر عن المعاصی‘‘ (گناہوں سے رُک جانا)؛ یعنی ’الإثم‘‘ پر مبنی جن گناہوں اور بُرائیوں سے روکا گیا ہے، اُن سے پوری استقامت سے رُکے رہنا۔
3۔ ’’صبر علیٰ المصائب‘‘ (مصیبتوں پر صبر کرنا)؛ یعنی نیکی کی حالت قائم کرنے اور بُرائیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے انسان تیار ہوجائے تو اس راستے میں آنے والی مصیبتوں کو پوری ہمت کے ساتھ برداشت کرنا۔
اس سے ارادے کی پختگی اور انسانی ہمت کی طاقت کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ ہمت اور جرأت اس کی مددگاربنتی ہے۔ اسی لیے صبر و استقامت سے مدد لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ انسان کے لیے مددگار دوسری چیز نماز ہے۔ جب انسان صبر و استقامت کے ساتھ اپنے صحیح ایمان اور نظریے کے مطابق عملی کام کرنے کے لیے پُرعزم ہوجاتا ہے تو مصیبتیں آتی ہیں، پریشانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ایسے ماحول میں اللہ کی طرف رجوع کرکے نماز پڑھنا بہت مددگار بنتا ہے۔ نماز کے ذریعے سے اللہ کی تجلیات نازل ہوتی ہیں، جس سے انسان کی روح طاقت ور بنتی ہے۔ روح کی طاقت انسان کی حالت بدلنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اس سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ صحیح ربط اور تعلق پیدا ہوجاتا ہے۔ نبی اکرمؐ کے بارے میں ہے: ’’کان النّبیّ ﷺ إذا حزبہٗ أمر صلّیٰ‘‘ (سنن ابی داؤد: 1319) (نبی اکرمؐ کو جب کوئی اہم کام درپیش ہوتا تو آپؐ نماز پڑھتے تھے)۔
وَإِنَّها لَكَبيرَةٌ إِلّا عَلَى الخاشِعينَ: ان دونوں چیزوں سے مدد لینا بہت مشکل ہے۔ اس مشکل سے نمٹنا تبھی ممکن ہے کہ جب انسان اپنی پوری قوتِ عقلیہ کے ساتھ یہ سمجھے کہ اُسے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ہے، اُسی کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کرنا ہے اور وہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا بالکل اسی طرح محتاج ہے، جیسا کہ کھانا پینا بلکہ اُس سے بھی زیادہ رجوع الیٰ اللہ کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف خشوع اور خضوع اختیار کرنے والوں کے لیے ان سے مدد لینا آسان ہوتا ہے۔
الَّذينَ يَظُنّونَ أَنَّهُم مُلاقو رَبِّهِم وَأَنَّهُم إِلَيهِ راجِعونَ: اللہ کی طرف خشوع و خضوع کی وضاحت کرتے ہوئے دو بنیادی اَساسی اُمور بیان کیے گئے ہیں: ایک یہ کہ اُن کے دلوںمیں یہ خیال پختہ ہوجائے کہ انھیں اپنے ربّ کے روبرو حاضر ہونا ہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پختہ ہوجاتا ہے، وہ ضرور اللہ کے سامنے جواب دہی کی وجہ سے صبر و استقامت اور نماز کے ذریعے سے مدد طلب کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اُن کے ذہن میں یہ واضح ہوجائے کہ انھیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔ دنیاکے تمام اُمور کا آخری نتیجہ یہی ہے کہ انھیں واپس اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف جانا ہے۔ وہاں حساب و کتاب ہونا ہے۔ گناہوں اور ظلم میں مبتلا لوگوں کے لیے سزا ہے اور عدل و انصاف، امن و امان اور اچھی حالت اختیار کرنے والے عمدہ اَخلاق کے حامل لوگوں کے لیے انعامات اور جنت کی ترقیات حاصل ہونا ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے تعلق اور نماز اور صبر سے استعانت حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت تیار کی جائے، جو وصول الیٰ اللہ کے رنگ میں رنگی ہوئی ہو اور ہدایتِ انسانی کے تمام شعبوں میں کامل اور مکمل ہو۔ اپنی اجتماعی طاقت سے اللہ کے احکامات کو دنیا میں غالب کرنے کے لیے کردار ادا کرے۔ اسی لیے نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا گیا اور اجتماعیت ہی کی صورت میں صبر و استقامت اختیار کرنا آسان ہوتا ہے۔ یہودیوں سے کہا جا رہا ہے کہ اپنی بداَخلاقی چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ پر ایمان لاکر اُن کی جماعت کا حصہ بنیں۔ تبھی کامیابی ممکن ہے۔
ٹیگز
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...