مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
جولائی 21, 2022احکام ومسائل قربانی و عیدالاضحی
1۔ ہر ایسے مسلمان عاقل، بالغ مرد و عورت پر قربانی کرنا واجب ہے، جو عیدالاضحی کے دن مقیم ہو اور صاحب ِنصاب‘ یعنی شریعت کی مقرر کردہ مال کی مقدار کا مالک ہو۔
2۔ صاحبِ نصاب وہ آدمی ہے، جس کے پاس شرعی نصاب: (الف) ساڑھے سات تولہ خالص سونا، یا اُس کی قیمت کے برابر ضرورت سے زائد مال ہو۔ (ب) یا ساڑھے باون تولہ (52.5) خالص چاندی کا مالک ہو۔
3۔ اس مال کی ملکیت پر پورا سال گزرنا ضروری نہیں، بلکہ اگر ۱۰؍ ذی الحج کی صبح صادق سے لے کر ۱۲؍ ذی الحج کے غروبِ آفتاب تک کے تین دنوں میں اتنے مال کا مالک بن گیا تو اس پر بھی قربانی واجب ہے۔
4۔ گھر میںموجود تمام افراد الگ الگ نصاب کے بقدر مالک ہوں تو ہر ایک پر علاحدہ سے قربانی کرنا واجب ہے۔ صرف گھر کے سربراہ کی طرف سے قربانی کر دینا سب کے لیے کافی نہ ہوگا۔
5۔ قربانی فقط اپنی طرف سے کرنا واجب ہے۔ بیوی اور اولاد کی طرف سے واجب نہیں، بلکہ اگر نابالغ اولاد مال دار بھی ہو، تب بھی اس کی طرف سے قربانی کی جائے تو وہ نفل ہوگی، لیکن اس کے مال میں سے قربانی کرنا ہر گز جائز نہیں۔
6۔ فقیر، محتاج اور مسافر پر قربانی کرنا واجب نہیں ہے۔
7۔ ایسا قرض دار کہ اس کے پاس موجود مال کے عوض اس کا قرض ادا کیا جاسکتا ہو، اس پر بھی قربانی واجب نہیں ہے، لیکن اگر قربانی کر لے تو ہو جائے گی۔
8۔ جس نے قربانی کرنے کی نذر مانی پھر وہ کام ہوگیا جس کی نذر مانی تھی تو اب قربانی کرنا واجب ہے، خواہ وہ مال دار ہو یا نہ ہو۔
قربانی کے جانوروں سے متعلق مسائل
1۔ شرعی طور پر درجِ ذیل عمروں کے صرف یہی جانور قربانی کے لیے مقرر ہیں:
نمبرشمار
قربانی کے جانور
مقررہ عمر
۱
اونٹ۔ اونٹنی۔
کم از کم پانچ سال
۲
بیل۔ گائے۔
کم از کم دو سال
۳
بھینسا۔ بھینس۔
کم از کم دو سال
۴
بکرا۔ بکری۔
کم از کم ایک سال
۵
دُنبہ۔ بھیڑ۔
کم از کم ایک سال
ان کے علاوہ کسی دوسرے جانور کی قربانی درست نہیں، البتہ اگر بھیڑ، یا دُنبہ چھ ماہ سے بڑا اور سال بھر سے کم کا ہو، لیکن موٹا تازہ اتنا ہو کہ سال والے جانوروں میں چھوڑ دیا جائے تو فرق محسوس نہ ہو، تو اس کی قربانی بھی ہوسکتی ہے۔
2۔ گائے، بھینس اور اونٹ میں اگر سات آدمی شریک ہو کر قربانی کر لیں تو بھی درست ہے، لیکن شرط یہ کہ کسی کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہ ہو۔ اور اس کی نیت قربانی کرنے کی یاعقیقہ کی ہو۔ اگر کسی ایک حصے دار کی نیت صرف گوشت کھانے کی ہو یا تجارت کی ہو تو کسی حصے دار کی بھی قربانی درست نہ ہوگی۔
3۔ چھوٹے جانور؛ بھیڑ، بکری، وغیرہ میں کئی آدمی شریک نہیں ہوسکتے، بلکہ ایک شخص کی جانب سے صرف ایک ہی جانور قربان ہوسکتا ہے۔
4۔ اگر گائے، بھینس، اونٹ میں سات آدمیوں سے کم شریک ہوئے، مثلاً پانچ آدمی یا چھے آدمی شریک ہوئے اور کسی کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہیں، تب سب کی قربانی درست ہے۔ اور اگر آٹھ آدمی شریک ہوگئے تو کسی کی قربانی صحیح نہیں ہوئی۔
5۔ اگر کسی آدمی پر قربانی واجب ہے اور اس کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے نے اس کا حصہ گائے وغیرہ میں رکھ دیا تو کسی کی قربانی جائز نہ ہوگی، البتہ اگر نفلی ہو تو جائز ہوگی۔
6۔ سات آدمی گائے میں شریک ہوئے تو گوشت کے سات حصے بناتے وقت اندازے سے تقسیم نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اچھی طرح ٹھیک تول کر تقسیم کرنا چاہیے۔ اگر کوئی حصہ زیادہ یاکم رہا تو سود ہوجائے گا اور گناہ ہوگا۔
7۔ قربانی کا جانور صحیح اور بغیر کسی جسمانی عیب کے ہونا چاہیے۔ لہٰذا ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں، جن میں درج ذیل عیب یا خرابیاں ہوں:
۱۔اندھا یا کانا ہو۔
۲۔بہت بیمار، بہت دُبلا پتلا، جس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو۔
۳۔ اتنا لنگڑا کہ صرف تین پائوں پر چلتا ہو، چوتھے پائوں سے چل نہ سکتا ہو۔
۴۔تمام یا اکثر دانت گر گئے ہوں یا سرے سے دانت ہی نہ ہوں۔
۵۔ پیدائشی کان ہی نہ ہوں یا کان تو ہوں، لیکن اکثر حصہ کٹا ہوا ہو (البتہ اُس جانور
جس کے کان تو ہیں، لیکن بالکل ذرا ذرا سے چھوٹے چھوٹے ہیں تو اس کی
قربانی جائز ہے)
۶۔ مادہ جانور کے تھن بالکل نہ ہوں یا دوائی وغیرہ لگا کر خشک کر دیے گئے ہوں۔
بھیڑ، بکری کا صرف ایک تھن ہو۔ گائے، بھینس اور اونٹنی کے صرف دو تھن
ہوں۔
۷۔ جس جانور کا سینگ جڑ سے اُکھڑ گیاہو (البتہ جس جانور کے پیدائشی ہی سینگ
نہ تھے یا سینگ تھے اور ٹوٹ گئے تو اس کی قربانی جائز ہے)۔
۸۔ جانور خنثیٰ ہو، یعنی اُس کے نر یا مادہ ہونے کا پتہ نہ چلتاہو۔
قربانی کرنے کے ایام اور اوقات
1۔ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ سے لے کر بارھویں تاریخ کے شام (غروب آفتاب) تک قربانی کرنے کا وقت ہے۔ جس دن چاہے قربانی کرے لیکن بہترین دن دسویں تاریخ کا دن ہے۔ پھر گیارھویں تاریخ اور پھر بارھویں تاریخ ہے۔
2۔ نماز ِعیدالاضحی ہونے سے پہلے قربانی کرنا درست نہیں ہے۔ جب لوگ نماز ِعید الاضحی پڑھ لیں، تب قربانی کرنی چاہیے۔
3۔ قربانی کرنے والے کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ یکم ذوالحجہ سے لے کر قربانی سے فارغ ہونے تک حجامت نہ بنوائے تاکہ حاجیوں سے مشابہت ہوجائے۔
ذبح اور گوشت سے متعلق مسائل
1۔ اپنی قربانی کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا بہتر ہے۔ اگر خود ذبح کرنا نہ جانتا ہو تو ذبح کے وقت سامنے کھڑ اہونا بہتر ہے۔ اگر خود ذبح نہ کرے یا ذبح کے وقت سامنے نہ کھڑا ہو تو قربانی کی ادائیگی میں کوئی کمی نہ ہوگی۔
2۔ قربانی کا گوشت خود کھائے، اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کرے اور فقیروں اور محتاجوں کو خیرات کر دے سب جائز ہے۔ بہتر یہ ہے کہ کم ا زکم ایک تہائی حصہ خیرات کرے۔
3۔ قربانی کا گوشت غیر مسلموں کو دینا بھی جائز ہے۔
4۔ نذر کی وَجہ سے واجب ہونے والی قربانی کا سارا گوشت فقیروں اور محتاجوں میں تقسیم کرنا ضروری ہے ، نہ خو د کھائے نہ امیروں کو دے۔
5۔ قربانی کی کھال یا اس کی قیمت یا گوشت چربی / چھیچھڑے وغیرہ قصاب کو ذبح کرنے اور کھال اُتارنے کے عوض دینا جائز نہیں ہے۔
6۔ قربانی کی کھال، جانور کے گلے کی رسّی وغیرہ سب چیزیں اللہ کے راستے میں خیرات کرنا چاہیے۔اگر یہ چیزیں فروخت کر دیں تو ان کی قیمت خیرات کرنا لازم ہے، البتہ قربانی کی کھال اگر خود استعمال کرے، مثلاًجائے نماز بنا لے تو جائز ہے۔
تکبیر تشریق کے احکام
1۔ عرفہ یعنی نو ذوالحجہ سے تیرہ ذوالحجہ تک پانچ دن ’’ایام تشریق‘‘ کہلاتے ہیں۔ ان ایام میں با جماعت اد اکی جانے والی ہر فرض نماز کے بعد بلند آواز سے ایک مرتبہ تکبیرِ تشریق کہنا واجب ہے۔ تکبیرِ تشریق یہ ہے:
’’اَللّٰہُ اَکْبَراَللّٰہُ اَکْبَرلَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَراَللّٰہُ اَکْبَر وَلِلّٰہِ الْحَمْد‘‘
البتہ عورتیںیہ تکبیر آہستہ آواز سے پڑھیں۔
2۔ ۹؍ ذوالحجہ کی نماز فجر سے لے کر ۱۳ ذوالحجہ کی نماز ِعصر تک ہر فرض نماز کے بعد یہ تکبیرات کہی جائیں گی۔ یہ کل 23 نمازیں ہوئیں۔
3۔ نمار کے فوراً بعد تکبیرات کہنی چاہئیں۔ اگر امام تکبیر کہنا بھول جائے تو مقتدیوں کو چاہیے کہ فوراً تکبیر کہہ دیں۔ یہ انتظار نہ کریںکہ جب امام کہے، تب کہیں۔
4۔ نماز ِعید الاضحی کے لیے گھر سے نکلیں تو راستے میں بلند آواز سے تکبیرِ تشریق کہنی چاہیے۔
5۔ نماز ِعید الاضحی کے بعد بھی تکبیرِ تشریق کہنا بعض ائمہ کے نزدیک واجب ہے۔
عید الاضحی کے احکام و مسائل
1۔ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ عید الاضحی ہے۔ جس مسلمان پر جمعۃ المبارک کی نماز پڑھنا واجب ہے، عید الاضحی کے دن اس پر جماعت کے ساتھ دو رکعت نمازِ عیدالاضحی بطورِ شکریہ کے پڑھنا واجب ہے۔
2۔ عید الاضحی کے دن درجِ ذیل اعمال مسنون اور مستحب ہیں:
۱۔ صبح کو بہت سویرے اٹھنا۔
۲۔ شریعت کے مطابق اپنی آرائش کرنا۔
۳۔ غسل کرنا۔
۴۔ مسواک کرنا۔
۵۔ عمدہ سے عمدہ کپڑے، جو پاس موجود ہوں، پہننا۔
۶۔ خوشبو لگانا۔
۷۔ عید کی نماز سے پہلے کوئی چیز نہ کھانا۔
۸۔ عید گاہ میں عید کی نماز پڑھنا۔
۹۔ عید گاہ صبح سویرے جانا۔
۱۰۔ عید الاضحی کی نماز اوّل وقت پڑھنا۔
۱۱۔ عید گاہ جاتے ہوئے بلند آواز سے تکبیر تشریق، یعنی:’’اَللّٰہُ اَکْبَراَللّٰہُ
اَکْبَرلَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَراَللّٰہُ اَکْبَر وَلِلّٰہِ الْحَمْد‘‘کہنا۔
۱۲۔ عیدگاہ کی طرف پیدل جانا۔
۱۳۔ دوسرے راستے سے واپس گھر آنا۔
3۔ جہاں نماز ِعید پڑھی جائے، وہاں اس دن اور کوئی نما زپڑھنا مکروہ ہے، نماز ِعید سے پہلے بھی اورنماز ِعید کے بعد بھی۔ ہاں نماز ِعید کے بعد گھر آکر نفل نماز پڑھنا مکروہ نہیں اور نماز ِعید سے پہلے گھر میں بھی نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
4۔ عورتیں اور جو لوگ کسی وَجہ سے نماز عید نہ پڑھیں، ان کا نماز عید سے پہلے کوئی نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
5۔ ایک شہر میں عیدین کی نماز بالاتفاق متعدد جگہوں پر جائز ہے۔
نماز ِعید الاضحی کا طریقۂ کار اور اس سے متعلق مسائل
1۔ سب سے پہلے نیت کرے کہ: ’’دو رکعت واجب نماز عید الاضحی چھ واجب تکبیروں کے ساتھ ادا کرنے کا ارادہ کرتا ہوں۔‘‘ نماز کی ادائیگی کا طریقۂ کار یہ ہے:
پہلی رکعت: تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھ لے۔ امام اور مقتدی سبحانک اللّٰھم آخر تک پڑھیں۔ اس کے بعدامام تین مرتبہ اللّٰہ اکبر کہہ کر دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور ہاتھ چھوڑ دے۔ آخری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لے۔ مقتدی بھی اس کی اقتدا کریں۔ اس طرح تین تکبیرات ادا کی جائیں گی۔ہر دو تکبیروں کے درمیان اتنا وقفہ ضروری ہے کہ تین مرتبہ سبحان اللّٰہ کہہ لے۔
اس کے بعد دیگر نمازوں کی طرح سورتِ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھی جائے اور رکوع و سجود کیے جائیں۔
دوسری رکعت: امام پہلے قرأت کرے گا، اس کے بعد پہلی رکعت کی طرح تین تکبیراتِ زائدہ ادا کی جائیں۔ ہر دفعہ کانوں تک ہاتھ اٹھا کر چھوڑ دیے جائیں۔ آخری تکبیر کے بعد ہاتھ چھوڑے ہوئے ہی رکوع کی تکبیر کہہ کر رکو ع میں جائیں اور سجدوں کے بعد حسب ِمعمول تشہد پڑھ کر نماز مکمل کریں۔
2۔ نماز عید الاضحی کے بعد امام دو خطبے پڑھے گا۔ خطبہ پڑھنا سنت ہے اور خطبہ سننا واجب ہے، یعنی اس وقت بولنا، چلنا پھرنا اور نماز پڑھنا وغیرہ سب ناجائز ہے۔
3۔ اگر کسی کو عید کی نماز نہ ملی ہو اور سب لوگ پڑ ھ چکے ہوں تو وہ شخص تنہا نماز ِعید نہیںپڑھ سکتا۔ اس لیے کہ نماز ِعید میں جماعت شرط ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص نماز ِعید میں شریک ہوا، پھر کسی وَجہ سے اس کی نماز فاسد ہوگئی ہو تو وہ بھی اس کی قضا نہیں پڑھ سکتا، نہ اس پر قضا واجب ہے۔ البتہ اگر فاسد ہونے والی نماز میں کچھ اَور لوگ بھی شریک ہیں تو پھر اُن کے لیے جماعت سے پڑھنا واجب ہے۔
ٹیگز
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
عیدالاضحیٰ کے دن کی تاریخی اہمیت
۱۰؍ ذوالحجہ ۱۴۴۱ھ / یکم؍ اگست 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں خطبہ عید الاضحی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’&rsqu…
احکام ومسائل قربانی و عیدالاضحی
1۔ ہر ایسے مسلمان عاقل، بالغ مرد و عورت پر قربانی کرنا واجب ہے، جو عیدالاضحی کے دن مقیم ہو اور صاحب ِنصاب‘ یعنی شریعت کی مقرر کردہ مال کی مقدار کا مالک ہو۔ …
ذی الحجہ کے پہلے دس دن کی فضیلت
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ، قَالَ: قَالَ رَسُولَ اللّٰہﷺ: ’’مَا مِنْ أیَّامٍ، الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیْھِنَّ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ مِنْ ھٰذِہِ الْأَیَّامِ الْعَشْرِ‘‘۔ فَقَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! ولَا الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ ا…
عید الاضحی کا دن منانے کے تصور کا پسِ منظر
عید الاضحی کا دن منانے کے تصور کا پسِ منظر ۱۰؍ ذوالحجہ ۱۴۴۲ھ / 21؍ جولائی 2021ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں …