قرآن حکیم کی تعلیم و تربیت

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
جنوری 09, 2021 - خطباتِ جمعتہ المبارک
قرآن حکیم کی تعلیم و تربیت

18؍ دسمبر 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ میں 17 روزہ دورۂ تفسیرِ قرآن کے افتتاح کے موقع پر خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا: 
’’معزز دوستو! کتابِ مقدس قرآن حکیم کی تعلیم و تربیت سے نصیحت حاصل کرنا، اپنے اندر صلاحیت و استعداد پیدا کرنا، جو اللہ کی یہ پاک کتاب انسانوں میں پیدا کرنا چاہتی ہے، یہ بہت اونچے درجے کی عبادت ہے۔ قرآن حکیم کا فہم و شعور، اس سے سچا تعلق پیدا ہونا، دلوں کو اس کے رنگ میں رنگنا، اس کے مطابق اپنی علمی، عملی اور عقلی، سماجی اور شعوری زندگی کو تیار کرنا بہت اعلیٰ درجے کا کام ہے۔ 
خاص طور پر اس غفلت کے زمانے میں جب کہ دنیا کے باطل افکار انسانی ذہنوں کو مسموم کر رہے ہیں۔ انسانیت کو انسانی ترقی کے راستے سے ہٹا کر شیطانی اور طاغوتی راستے پر ڈال رہے ہیں۔ ظلم اور ناانصافی کا دور دورہ ہے۔ انسان اپنی انسانیت سے محروم ہو رہا ہے۔ شیطنت اور انسان دشمنی اس پر مسلط ہے۔ ایسے ماحول میں کتابِ مقدس قرآن حکیم کی تعلیم اور تربیت حاصل کرنا، اس حوالے سے اپنے اندر مہارت پیدا کرنا، یقینا دنیا اور آخرت کی کامیابی اسی میں مضمر ہے۔ 
آج کی ضرورت یہ ہے کہ ہم صحیح تناظر میں کتابِ مقدس قرآن حکیم کا درست فہم حاصل کریں، اس کے پیغام کو سمجھیں۔ یوں تو کتابِ مقدس قرآن حکیم کے حفظ کرنے، پڑھنے پڑھانے، دروسِ قرآن کے سلسلے قائم ہونے کا بہت غلغلہ ہے۔ قرآن حکیم کے دروس دیے جاتے ہیں۔ تفسیریں بیان کی جاتی ہیں۔ الفاظ اور معانی سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن اس پر جس تربیت کی ضرورت ہے، عملی طور پر جو کچھ اپنے دل و دماغ میں سمونے کی ضرورت ہے، اس کی طرف توجہ نہیں ہے۔ سب کچھ حلق سے اوپر ہے، چاہے وہ پڑھنا پڑھانا ہو یا درس و تدریس اور تفسیر وغیرہ کی کلاسز ہوں۔ اس کے نتیجے میں اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنا، پھر اس تبدیلی کی اساس پر اپنی سوسائٹی کو بدلنا، اپنے اجتماع کو درست خطوط پر استوار کرنا، اپنے سیاسی، معاشی، سماجی اُمور کو قرآن حکیم کی تعلیمات کے مطابق آگے بڑھانا، یہ ذہن اور یہ سوچ، یہ تربیت اور مہارت آج عام طور پر ہمارے گردو پیش کے ماحول میں نہیں ہے۔ 
ہم آج جس دورۂ تفسیر کا آغاز کر رہے ہیں، اس میں ہم سب کی نیت یہ ہو کہ ہم اس پر عمل کرکے اپنے باطن کو روشن کرنے، اپنے فکر کو بلند کرنے، اپنے نظریے کو مستحکم بنانے، اپنی عملی مہارت کو قرآنی تعلیمات کے مطابق منتقل کرنے کے لیے جدوجہد اور کوشش کریں گے۔ اپنے آپ کو بدلیں گے۔ فرسودہ تصورات کو ذہن و فکر سے نکال پھینکیں گے۔ قرآنی افکار و خیالات کو دل و دماغ میں جذب کریں گے۔ انبیاؑ اور صحابہؓ، اولیاء اللہؒ اور علمائے ربانیّینؒ کے نقشِ قدم پر چلیں گے۔ تبھی پڑھنے پڑھانے کا پورا فائدہ ہے۔‘‘ 


قرآن حکیم کے علوم برہانی اور نورانی ہیں! 
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا: 
’’ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (القرآن174:4) کہ اے لوگو! تم پر تمھارے ربّ کی طرف سے بُرہان، واضح دلائل اور شعور کے ساتھ پیغام آچکا ہے اور ہم نے تمھاری طرف واضح نور نازل کیا ہے۔ اس آیت میں دو باتیں فرمائی ہیں: ایک یہ کہ قرآن حکیم ’’برہان‘‘ ہے۔ برہان ہر اُس دلیل کو کہتے ہیں، جس کے مقدمات (صغریٰ و کبریٰ) حقائق اور سچائی پر مبنی ہوں۔ ظنی، وہمی اور شک پر مبنی نہ ہوں ۔ جیسے روز ِروشن کی طرح سورج نکلا ہوا ہے تو یہ ایک حقیقت ہے۔ کتابِ مقدس قرآن حکیم وہ عقلی دلائل (Logics) اور شعور انسانیت میںمنتقل کرتا ہے، جو کائنات کی انتہائی سچائی پر مبنی ہے۔ دوسری بات یہ کہ قرآن حکیم ’’نورِ مبین‘‘ ہے۔ نور کا تعلق روح کی مَلَکی قوت کے ساتھ ہے اور روح کی حقیقت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ ’’روح ایک ناقابل تقسیم حقیقت ہے۔ وہ ایک نورانی نقطہ ہے، جو روح الکل سے کٹ کر ماں کے پیٹ میں بچے کے جسم کے اندر آیا۔ وہ ایک نور ہے‘‘۔ اس نور کو اپنی طاقت اور قوت بڑھانے کے لیے ایک نور کی ضرورت ہے۔ اور نور بھی وہی ہو، جو آسمان سے نازل ہوا ہو۔ تو ہم نے تمھاری طرف ایک واضح نور یعنی قرآن حکیم نازل کیا ہے۔ اس طرح انسان کی روحِ ملکوتی کے نور کے ساتھ نورِ قرآنی ملا تو (القرآن 35:24) ہوگیا۔ 
حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ اللہ نے جب انسان بنایا، اس کی روحانی و نفسانی طاقت و قوت کو وجود بخشا۔ پھر اپنی تجلی کی روشنی انسانی روح پر ڈالی تو اس کے ذریعے سے انسان کا پورا وجود روشن ہوگیا۔ جس سے یہ پتہ چلا کہ اس انسان کے جسم اور روح کے لیے کون کون سی چیزیں مفید اور ضروری ہیں اور کون کون سی چیزیں مضر اور نقصان دہ ہیں۔ جو انسان کے لیے انتہائی لازمی اور ضروری تھیں، اللہ نے اُسے فرض اور واجب قرار دے دیا اور جو نقصان دہ تھیں، انھیں حرام قرار دے دیا۔ قرآن حکیم کے علوم برہانی بھی ہیں اور نورانی بھی ہیں۔ جب تک یہ دونوں جمع نہیں ہوں گے، اس وقت تک انبیا علیہم السلام کے علومِ نبوت پوری طرح سمجھ میں نہیں آئیں گے۔ نہ قرآن حکیم سمجھ میں آئے گا اور نہ اُس کی تعلیمات پر تربیت ہوگی۔ آج کے اس زوال کے زمانے کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ کتابِ مقدس قرآن حکیم کے برہانی علوم تو سب پڑھتے ہیں۔ مدرسے کھلے ہوئے ہیں، مسجدیں کھلی ہوئی ہیں، خانقاہیں بنی ہوئی ہیں، تبلیغ، اور پتہ نہیں کیا کیا۔ اسلامی جماعتیں ہیں، اسلام کے نام پر ملک ہیں، یونیورسٹیاں ہیں، کالجز ہیں، اس کا برہانی عمل ہے، لیکن اس کا جو نورانی عمل ہے کہ حلق سے نیچے روح کے اندر اس کے اثرات ہوں، دل اور دماغ کو وہ روشن کرے، نورانیت پیدا کرے۔ اس کی محنت بہت کم ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ تمام تر تعلیم و تعلّم حلق سے اوپر اوپر محض برہانی ہوتا ہے اور وہ بھی ناقص اور ادھورا۔ اس لیے کہ جب انسان دو چیزوں جسم اور روح سے مرکب ہے اور صرف جسم کے تقاضوں کے تناظر میں بات سمجھی جائے تو ادھوری بات سمجھ میں آئے گی۔ پوری بات سمجھ میں نہیں آئے گی۔‘‘ 


دل؛ انسانی ارادوں کا مرکز اور منبع ہے!
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا: 
’’انسانی جسم کا سب سے پاورفل ارادوں کا مرکز اور منبع دل ہے۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ: ’’تمھارے جسم میں ایک ٹکڑا ہے، وہ ٹکڑا ٹھیک ہوجائے تو پورا جسم ٹھیک۔ وہ ٹکڑا خراب ہوجائے تو پورا جسم خراب۔ اور وہ دل ہے‘‘۔ (صحیح بخاری) دل ٹھیک ہے، سب کچھ ٹھیک ہے۔ یہی حال نورانیت کا ہے۔ جس دل میں روح کا نور پھیلا ہوا ہے، وہ نورانی عمل جو قلب نے محفوظ کیا ہوا ہے، وہی آگے پھیلے گا۔ ورنہ تو دل پتھر کا ٹکڑا ہے۔ قرآن حکیم نے کافروں کے بارے میں کہا کہ وہ سینے میں دل تو رکھتے ہیں، لیکن سمجھتے نہیں ہیں۔ کیوں کہ ان کے دل پتھر کی طرح سخت ہیں، جن پر کوئی چیز اثر نہیں کرتی۔ وہ کہتے ہیں: ’’ہمارے دلوں پر تو غلاف چڑھا ہوا ہے‘‘۔ (القرآن: 88:2) اور جس قلب پر چاروں طرف غلاف چڑھا ہوا ہو تو نور اُس کے اندر جائے گا؟ نہیں! روشن دلوں سے ہی اگلے دلوں تک بات منتقل ہوتی ہے، جو کھلے دل کے ساتھ اُسے قبول کرتے ہیں۔ 
اسی لیے دین اسلام کی تعلیمات میں قرآنی علوم سمجھنے کے لیے تسلسل رکھنے والے علمائے ربانیّین کا ہونا بہت ضروری ہے کہ آپ کا سلسلۂ سند کیا ہے؟ آپ کے دل کا سلسلہ کسی مقفل اور مغفل دل سے تو نہیں جڑا ہوا ہے؟ اگر ایسے دل سے جڑا ہوا ہے تو اسلام کے جتنے مرضی نعرے لگاتے رہو، کچھ نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اگر وہ اُن دلوں سے جڑا ہوا ہے، جن کے دل روشن ہیں، جو روشن ضمیر اور روشن خیال ہیں، جن کے قلب اور عقلیں روشن ہوچکی ہیں، اُن کے نقش قدم پر چلو گے تو دل روشن ہوگا۔ روشن دل سے ہی روشنی حاصل ہوگی۔ تبھی یہ نورِ مبین سمجھ میں آئے گا۔ اندھے دل سے کوئی روشنی حاصل نہیں ہوگی۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ اس برعظیم پاک و ہند میں روشن خیال، روشن دل، روشن ضمیر اور روشن عقل والے لوگ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمدسرہندیؒ، حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور اُن کے سلسلے کے تربیت یافتہ علما ہیں۔ کسی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جتنے بھی اس وقت مذہب کے نمائندہ فرقے ہیں، تمام کے ہاں یہ دونوں شخصیات متفق علیہ ہیں۔ تمام سلسلے، تمام تر بزرگوں کی روشن ضمیری اور اس کی روشنی اور نور امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ میں آکر جمع ہوجاتا ہے۔ پھر انھیں کے قلب کے فیوض سے قرآن حکیم پڑھنے پڑھانے اور سمجھنے سمجھانے کا سلسلہ اس پورے برعظیم پاک و ہند میں، بلکہ دنیا بھر میں پھیلا۔ اس ولی اللّٰہی جماعت کے علوم انسانی قلوب میں منتقل ہوئے۔ یہ شخصیات نہ صرف امام الانبیا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے قلب ِاطہر اور مشکوٰۃِ نبوت سے فیض حاصل کرنے والی ہیں، بلکہ اُن کے تربیت یافتہ صحابہؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ، اولیاء اللہؒ، علمائے ربانیینؒ اور پورے ایک ہزار سال کا تاریخی تسلسل لیے ہوئے ہیں۔ یہ ایسا فکر و عمل ہے کہ جس کے ذریعے سے قرآن حکیم کی برہان بھی سمجھ میں آتی ہے اور قرآن حکیم کا نور بھی واضح ہوتا ہے۔ اس کی تبیین بھی واضح ہوتی ہے۔ اس کا فہم و شعور بھی آتا ہے۔‘‘ 


اجتماعی زندگی میں ’’اَخلاق‘‘ کی اہمیت 
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا: 
’’ہمارے ہاں فکر کو اہمیت دی جاتی ہے اور فکر و فلسفے کے نام پر بہت کچھ پڑھا پڑھایا جاتا ہے۔ دوسری طرف کچھ لوگ اعمال کی درستگی کے پیچھے لگے ہوئے ہوتے ہیں کہ اعمال صحیح ہونے چاہئیں، قرآن کے مطابق ہونے چاہئیں، لیکن ایک تیسری بڑی اہم چیز ہے، جس کی طرف عام طور پر توجہ نہیں کی جاتی۔ وہ یہ ہے کہ یہ افکار و اعمال مسلسل کرنے کے نتیجے میں انسان میں ایک عادت، خُلق اور ویلیو پیدا ہوتی ہے، جسے اَخلاق کہتے ہیں۔ اصل میں ان اَخلاق کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کل فکر کو درست کرنے کی بات ہے، اعمال کو درست کرنے کی بات ہے، لیکن غلط اعمال اور غلط افکار کے نتیجے میں جو بداَخلاقیاں پیدا ہوگئی ہیں، اس کا کیا علاج ہے؟ خُلق وہ ہوتا ہے، جو ماضی میں کسی عمل کو مسلسل کرنے کے نتیجے میں آپ کے دل، دماغ اور عقل کی جو حالت ہوچکی ہو، اس کی وجہ سے اُس کی جو ساخت بن چکی اور جس ڈھب پر وہ ڈھل گیا ہو۔ صوفیائے کرام اسی خُلق کو زیربحث لاتے ہیں۔ 
اَخلاق کے ذریعے سے فکر کا بھی پتہ چلتا ہے کہ فکر صحیح تھا یا نہیں؟ اَخلاق کے ذریعے سے عمل کا بھی پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں جو عمل کیے تھے، وہ کیسے تھے؟ نماز پڑھی تھی، اس کے پیچھے جو سوچ کارفرما تھی، نیت تھی، وہ کیسی تھی؟ اگر اس نماز پڑھنے کے نتیجے میں فکر صحیح ہوتا، عمل صحیح ہوتا، تو ضرور یتیم و مسکین کے کھانے کا بندوبست کرتا۔ ضرور انصاف پسند ہوتا۔ اور اگر نہیں ہے تو (القرآن 4:107)؛ ایسے نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے۔ یہ انسان وہ ہے، جو ؛ (1:107)انصاف کا منکر ہے۔  اس نے نمازیں بڑی پڑھیں، روزے بہت رکھے، بڑے حج اور عمرے کیے اور افکار و خیالات بھی بڑے اچھے تھے۔ زبان اور حلق سے بڑے اعلان کرتا تھا۔ اس کی پارلیمنٹ کے ماتھے پر بھی لکھا ہوا تھا لا الٰہ الا اللہ۔ لیکن کیا اس کے مطابق اس کے اَخلاق بھی تھے؟ 
قرآن حکیم ہمیں اس طرح سیکھنا ہے کہ ہمارا فکر بھی صحیح ہو، عمل بھی صحیح ہو اور اس کے نتیجے میں ہمارا خُلق بھی صحیح ہو۔ اور ان تینوں کے مجموعے کا اثر سوسائٹی پر ظاہر ہو تو پھر تو نتیجہ درست ہے۔ اور اگر سوسائٹی میں اثر نہیں ہے، حقائق کے تناظر میں اَخلاق و اَقدار نہیں ہیں تو یہ حلق سے اوپر اوپر قرآن پڑھنا ہے۔ حلق سے اوپر اوپر حدیث پڑھنا ہے۔ حلق سے اوپر اوپر اسلام ہے۔ ان تینوں کا درست ہونا، قرآن حکیم کے نزول کا مقصودِ اصلی ہے۔ 
ہمیں ادارہ رحیمیہ کے اس دورۂ تفسیر میں قرآن حکیم کو اولیاء اللہ کے علوم و افکار کے تناظر میں سمجھنا ہے کہ ہمارا فکر بھی صحیح ہوجائے، ہمارا عمل بھی صحیح ہوجائے اور ہمارا خُلق اور اقدار بھی درست ہوجائیں۔ نہ صرف قومی دائرے میں، بلکہ پوری انسانیت کے دائرے میں ہمارے اَخلاق درست ہوں۔ اور اَخلاق و اقدار تبھی درست ہوں گے کہ جب ہماری گفتگو صحیح ہو، فکر صحیح، عمل صحیح اور اس کے نتیجے میں ہمارے اعمال اور اَخلاق بدلیں۔‘‘

ٹیگز
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

ادارہ رحیمیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کیمپس کا افتتاح

۲۱؍ ربیع الثانی ۱۴۴۰ھ / 7؍ دسمبر 2020ء بروز پیر وہ بابرکت دن تھا، جب ٹوبہ ٹیک سنگھ میں جناب ڈاکٹر محمدعنبر فرید اور اُن کے خاندان کی عطیہ کردہ جگہ پر ادارہ رحیمیہ علومِ قر…

انیس احمد سجاد جنوری 08, 2021

ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کا قیام و پس منظر، بنیادی مقاصد، تعلیمی و تربیتی سرگرمیاں

ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کا قیام ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ)ایک دینی، تعلیمی اور تربیتی مرکز ہے۔ یہ اپنی وقیع علمی حیثیت اور دین اسلام کے نظامِ فکروعمل کی شعوری تر…

ایڈمن فروری 10, 2021

آج کی مذہبی جماعتیں اور دو بنیادی سوال

آج ہمارے گردوپیش جدوجہد کے بہت سے ماڈل موجود ہیں، جن کے کردار اور نتائج کے حوالے سے کئی ایک سوال بھی ایک حقیقت کا درجہ رکھتے ہیں۔ مثلاً مذہب کے نام پر قائم جماعتوں کے حوا…

مولانا محمد عباس شاد فروری 17, 2021

مذہب لڑائی کا ذریعہ نہیں ہے

’’1920ء کے بعد دنیا نے یہ طے کرلیا کہ ریاستیں قومی تناظر میں وجود میں لائی جائیں گی۔ قوم کی جان، مال، رنگ، نسل، مذہب کا تحفظ ہوگا اور جمہوری اور ادارتی بنیاد…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جولائی 07, 2020