قبلہ کی تبدیلی پر سوالات؛ بے وقوفی

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
ستمبر 11, 2025 - دروس القرآن الحکیم
قبلہ کی تبدیلی پر سوالات؛ بے وقوفی

گزشتہ دو رکوع (-2 البقرہ: آیات: 122 تا 141) میں بنی اسرائیل اور یہودیوں کے سامنے ملّتِ ابراہیمیہ حنیفیہ کی حقیقت اور ملت کے پہلے مرکز بیت اللہ الحرام مکہ مکرمہ کی قرار واقعی مرکزیت کا تعارُف تھا اور پھر یہودیوں کی طرف سے ملتِ ابراہیمی سے کیے گئے اِنحرافات کا تذکرہ تھا اور یہ حقیقت واضح کی گئی تھی کہ حضرت اسرائیل (یعقوب) علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت اسی ملت کی اتباع کی دعوت دی تھی۔ اس ملت میں یہودیت اور نصرانیت کی تحریف بہت بعد کی بات ہے۔ اس تحریف شدہ ملت کی اَساس پر ملتِ محمدیہؐ سے جھگڑا کرنا‘ کسی طور مناسب نہیں ہے۔

آئندہ آیات (-2 البقرہ: 142تا 150) میں ملّتِ ابراہیمیہ حنیفیہ کے اصل قبلے کے بارے میں یہود و نصاریٰ اور منافق مسلمانوں کے سفاہت اور بے وقوفی پر مشتمل شکوک و شبہات کا ردّ کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں اللہ کی طرف سے خانۂ کعبہ کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنے کا جو آخری حکم دیا گیا ہے، وہی ملّی اُصولوں پر پورا اُترتا ہے۔

﴿سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ﴾ (اب کہیں گے بے وقوف لوگ کہ: کس چیز نے پھیر دیا مسلمانوں کو اُن کے قبلہ سے، جس پر وہ تھے ؟): انسانیت کی اجتماعی ترقی اور کامیابی کے لیے ایسے مراکز کی ضرورت ہوتی ہے، جہاں اُن کی اجتماعی تعلیم و تربیت کا بندوبست ہو۔ ملّتِ ابراہیمیہ حنیفیہ کا تشریعی نظام امامِ انسانیت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قائم کیا تھا، وہ حنیفی تھے، اس لیے اللہ کی عبادت کے لیے اللہ کا گھر تعمیر کرنا ضروری ٹھہرا۔

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ: ’’الأصلُ أن یُّراعَ فی أوضاعِ القُرُبات حالُ الأمّة الّتی بُعِثَ الرّسولُ فیها وقامتْ بنُصرتهہٖ‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ، ج: 2، ص: 28) (یہ بات بہت اُصولی ہے کہ قربِاتِ بارگاہِ الٰہی تعالیٰ کی عملی شکلوں کے متعین کرنے میں اُس قوم کی حالت کی رعایت رکھی جاتی ہے، جس کی طرف کسی رسول کو مبعوث کیا جاتا ہے اور وہ اُمت اُس رسول کی نصرت کے لیے اُٹھ کھڑی ہوتی ہے)۔

اس پسِ منظر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دو مراکز قائم کیے تھے: کل انسانیت کا پہلا مرکز اپنے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر مکہ مکرمہ میں ’’بیت اللہ الحرام‘‘ کی صورت میں تعمیر کیا۔ بنی اسماعیل اس کے متولّی ہوئے اور انھوں نے ابراہیمی تحریک کی اَساس پر مکہ مکرمہ میں اجتماعیت کی تشکیل کی۔ اس کی تفصیل گزشتہ آیات میں بیان کردی گئی ہے۔ چالیس سال کے بعد دوسرا مرکز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام اور اُن کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام نے ’’بیت المقدس‘‘ کی صورت میں تعمیر کیا، جو بنی اسرائیل کی تولیت میں حنیفی تحریک کے لیے دوسرے مرکز کے طور پر کام کرتا رہا۔

اس تناظر میں بنی اسماعیل - خاص طور پر قریش - کی عبادات اور قرباتِ بارگاہِ الٰہی مکہ مکرمہ کی مرکزیت کے ساتھ طبعی طور پر جڑی ہوئی تھی۔ اور اسی طرح طبعی طور پر بنی اسرائیل - خاص طور پر یہود و نصاریٰ - کی عبادات اور قربات کا مرکز بیت المقدس کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ دونوں خاندانوں اور اُن کے حالی اور موالی قبائل بھی طبعی اور فطری طور پر ان دونوں ہی مراکز : بیت اللہ الحرام اور بیت المقدس کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔

آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں جب امامِ انسانیت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت کی تجدید کی اور اُسے تحریفات سے پاک کرکے اُس کی اصل تعلیمات کی طرف دعوت دی۔ قریش میں سے جو سابقون الاوّلون لوگ آپؐ پر ایمان لائے تو انھوں نے فطری طور پر حنیفی تحریک کے پہلے مرکز بیت اللہ الحرام ہی کو اپنی عبادات کے لیے اپنا قبلہ بنایا۔

حضور اقدس ﷺ جب اَنصارِ مدینہ - خاص طور پر اَوس و خزرج - کی دعوت پر مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو ملّتِ ابراہیمیہ میں قرباتِ الٰہیہ کے لیے متعین کردہ قبلہ کی اُصولی تعلیمات کی روشنی میں عنایتِ الٰہیہ اس بات کی طرف متوجہ ہوئی کہ انصارِ مدینہ - اَوس و خزرج- اور اُن کے جو حلیف یہودی قبائل تھے، اُن کی تالیفِ قلب کی جائے۔ اس لیے کہ یہی انصارِ مدینہ آپؐ کی نصرت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے اور مستقبل میں وہ ایک ایسی اُمت کی صورت میں ڈھل رہے تھے، جو کل انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تھی۔ اس زمانے میں اَوس و خزرج کے قبائل‘ یہودیوں کے قبلہ بیت المقدس اور اُن کے علوم سے بہت متأثر تھے، بلکہ انھیں علمی طور پر اپنے سے افضل سمجھتے اور بہت سے کاموں میں اکثر اُن کی اتباع کرتے تھے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان فرمایا ہے۔ (سنن ابوداؤد، حدیث: 2164)

اس پسِ منظر میں آپ ﷺ نے اَوس اور خزرج کی تالیفِ قلب اور یہودیوں کو ملّتِ ابراہیمیہ کی اصل تعلیمات کی دعوت دینے کے لیے سولہ سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز ادا کی تھی۔ اس میں یہ حکمت کارفرما تھی کہ ایک طرف مہاجرین صحابہ پر یہ بات واضح ہوجائے کہ دینِ حنیفی کل انسانیت کا دین ہے۔ اسے کسی ایسی جہت کے ساتھ وابستہ کرلینا ٹھیک نہیں، جو محض قریشی قومی عصبیت پر مبنی ہو، بلکہ کعبۃ اللہ کی مرکزیت کو اس لیے مانا جائے کہ اُسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کل انسانیت کے مرکز کے طور پر تعمیر کیا تھا۔ چناں چہ وہ قومی تعصب سے نکل کر صرف اللہ کے تعلق سے کل انسانیت کو اُسی کی طرف دعوت دینے کا فکر اپنے اندر پیدا کریں۔

دوسری طرف ان سولہ سترہ مہینوں میں بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنے میں یہ حکمت کارفرما تھی کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہی قائم کردہ مرکز ہے اور یہ کہ اَوس و خزرج - جو علمی طور پر یہودیوں کو اچھا سمجھتے ہیں - بھی مطمئن ہوجائیں اور اُن کے حلیف یہودی قبائل میں سے بھی جو مخلص لوگ ہیں، وہ ملّتِ حنیفیہ کے اس تجدیدی نظام کے ساتھ وابستہ ہوکر مسلمان ہوجائیں۔

(بقیہ: درسِ قرآن) چناں چہ جب یہ دونوں مصلحتیں پوری ہوگئیں اور مخلص یہودی - جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن سلامؓ - آپؐ پر ایمان لے آئے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے ملّتِ ابراہیمیہ کے اصل مرکز کعبۃ اللہ کو اپنا قبلہ بنانے کا جذبہ آپ ؐ میں پیدا ہوا۔ چناں چہ آپؐ کو حکم دیا گیا کہ:﴿فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ﴾ (-2 البقرہ: 149) (آپ اپنے چہرے کو مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجیے)۔ اس پر یہود و نصاریٰ اور منافقین مسلمان بے وقوفوں نے بہت شور و شغب کیا کہ کیوں یہ قبلہ بیت المقدس سے بیت اللہ الحرام کی طرف بدل دیا گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا درجِ ذیل جواب دیا کہ :

﴿قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ﴾ (تُو کہہ! اللہ ہی کا ہے مشرق اور مغرب ، چلائے جس کو چاہے سیدھی راہ پر)۔

ملّتِ ابراہیمیہ حنیفیہ میں اصل اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت اور اُس کے حکموں کی پابندی کرنا ہے اور دنیا کی مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کی تمام جہات اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کے لیے ہیں، خواہ تم کسی بھی جہت کی طرف رُخ کرکے اللہ تعالیٰ کی نماز پڑھو تو اللہ تعالیٰ کو پاؤ گے۔ گزشتہ آیات میں واضح کردیا گیا ہے کہ یہودی اور عیسائی قومی تعصبات پر مبنی تمام پہلوؤں کو چھوڑو اور ملّتِ حنیفی کی اصل یہ بات جان لو کہ:

﴿وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ ﴾ (-2 البقرہ: 115) (اللہ ہی کے لیے ہے مشرق اور مغرب، جس طرف بھی تم رُخ کرو گے، وہیں اللہ کو پاؤ گے)۔ اس لیے قومی عصبیت پر مبنی جہتِ قبلہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ دونوں مراکز اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قائم کیے ہیں۔ جس طرف بھی رُخ کرکے اللہ کی عبادت اخلاص کے ساتھ کرو گے، کامیابی پاؤ گے۔ چناں چہ ان سولہ سترہ مہینوں میں مخلص مسلمان مہاجرین قریشی عصبیت سے بالاتر ہو کر بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھی اور حضور اقدس ﷺ کی ہدایات کے مطابق انھوں نے عمل کرکے دکھایا۔ اس طرح اُن میں ’’خَیْرُ أُمّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاس‘‘ (انسانیت کے لیے کام کرنے والی بہترین اُمت) کا وصف پیدا ہوگیا۔

اسی طرح جب بیت المقدس کے بجائے بیت اللہ الحرام کو اپنا قبلہ بنایا گیاتو مدینہ میں اسلام لانے والے انصار اور یہودیوں میں سے مخلص مسلمان یہود عصبیت پر مبنی جہتِ بیت المقدس سے نکل کر کل انسانیت کے مرکز کعبۃ اللہ کی طرف دیے گئے حکم پر دل و جان سے عمل پیرا ہوگئے اور یوں انسانیت کی ترقی کے لیے بنائی جانے والی جماعت کے اہم ترین رُکن کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کیا۔ خدا پرستی اور انسانیت کی ترقی کا یہ وہ ’’صراطِ مستقیم‘‘ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیّت کے تحت مخلص مسلمان مہاجرین و اَنصار کو یہ توفیق دی کہ وہ اس راستے کو اپنا کر ملتِ ابراہیمیہ حنیفیہ کی پورے طور پر اتباع کریں اور اس کے مطابق اپنا جہد و کردار ادا کریں۔

اس لیے تحویلِ قبلہ پر بے وقوف لوگوں کا اعتراض کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اُن کی باتیں ملتِ ابراہیمیہ حنیفیہ کی تعلیمات سے عدمِ آگہی پر مبنی حماقت رکھتی ہیں۔

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

دینی بے شعوری کا غلاف ؛ تباہی کا راستہ

سورت البقرہ کی گزشتہ آیت (87) میں یہ حقیقت واضح کی گئی تھی کہ جب بنی اسرائیل میں سوسائٹی کی جامع دینی تعلیمات کے حوالے سے تقسیم و تفریق کا رویہ پیدا ہوا اور وہ صرف رسمی …

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری اپریل 12, 2023

عیدالاضحیٰ کے دن کی تاریخی اہمیت

۱۰؍ ذوالحجہ ۱۴۴۱ھ / یکم؍ اگست 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں خطبہ عید الاضحی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’&rsqu…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جولائی 07, 2021

بنی اسرائیل کے لیے قومی اور ملکی سطح کا اجتماعی نظام

وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نَصبِرَ عَلىٰ طَعامٍ واحِدٍ فَادعُ لَنا رَبَّكَ يُخرِج لَنا مِمّا تُنبِتُ الأَرضُ مِن بَقلِها وَقِثّائِها وَفومِها وَعَدَسِها وَبَصَلِها ۖ قالَ أَتَستَبدِلونَ الَّذي هُوَ أَدنىٰ بِالَّذي هُوَ خَيرٌ ۚ اهبِطوا مِصرًا فَ…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری ستمبر 10, 2021

تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی

گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری نومبر 11, 2022