پاکستان کو موجودہ مالی سال کے آمدہ چار ماہ میں قرضوں کی ادائیگی اور اپنی ضروریات کے لیے 10 ارب ڈالر کا اضافی قرض درکار ہے اور آمدہ مالی سال کے دوران انھی مدات میں 20 سے 25 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ قرض اور اس پر سود کی ادائیگی محنت کی کمائی سے کردی جائے تو گویاقرض لینے کی بنا پرعزت و وقار میں کمی کا ازالہ ہو، لیکن پاکستان ایسے کام نہیں کرتا۔ یہاں کے ذمہ داران اس ہمالیائی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ایک اَور منصوبہ بنا چکے ہیں۔
گزشتہ تین سالوں میں ہم نے مشاہدہ کرلیا کہ ہمارے بہترین ذہن، یعنی بیوروکریٹس اور قومی سرمایہ دار کمیشن‘ اُوپر کی کمائی اور بلیک میلنگ کے ماہر ہیں۔ انھوں نے کمال مہارت سے مراعات بھی لے لیں، کام بھی نہ ہونے کے برابر کیا۔ اور آج ملک تقریباً وہیں کھڑا ہے، جہاں سے چلے تھے۔ مہنگائی کا ایک طوفان ہے، جو تھمنے کا نام نہیں لیتا، لیکن ان کا معیارِ زندگی اور کاروباری منافع تاریخی ریکارڈ توڑ رہے ہیں۔ ریکارڈ توڑنے کی ریت چل ہی نکلی ہے تو صاحب لوگوں نے سوچا کہ قرض لینے کا ریکارڈ بھی بنا لیا جائے۔ چناں چہ ڈیٹ لیمیٹیشن ایکٹ(Debt Limitation Act)منظور کرلیا گیا ہے۔ اس کے مطابق حکومتِ پاکستان سالانہ قومی پیداوار کا 60 فی صد قرض لے سکتی ہے اور 10 فی صد تک کی ریاستی ضمانتیں جاری کرسکتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ہمارے لیڈران اور افسران نے اس طے شدہ حد سے کم قرض لیا ہوا تھا اور اب اس ایکٹ کی منظوری کے بعد مزید قرض لیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلے سے موجود قانون کے مطابق پاکستان پر سالانہ پیداوار کا 60 فی صد قرض ہی چڑھایا جاسکتا تھا، لیکن قانون میں ہمارے لیڈران کے پاس صوابدیدی اختیارات نہیں تھے۔ اب وہ اختیارات انھیں دے دیے گئے ہیں، جن کے مطابق ضرورت کا تعین قانون میں دیے گئے ممکنات نہیں ہوں گے، بلکہ ہمارے محبوب لیڈرز اور افسرانِ بالا کی سمجھ بوجھ ہوگی، تاکہ ملک معاشی مشکلات کا شکار نہ ہونے پائے اور فیصلہ فوراً ہو جائے۔
یہ آخری جملہ ازراہِ تفنن بیان نہیں کیا گیا۔ ہمارا دوہرا مسئلہ ہے کہ امریکا یا برطانیہ کے قانون کا چھاپہ لگاتے ہوئے ہمارے یہ بڑے ذہن یہ بھی نہیں سوچتے کہ وہ ممالک یوں ہی ترقی نہیں کرگئے۔ وہاں بنے ہوئے قوانین کا بغیر معروضیت کو مد ِنظر رکھے، اطلاق پاکستانی مقتدرہ کے پاؤں کی بیڑیاں بن جائے گا اور اُس قانون کو پہلی دفعہIMFہی مکمل پڑھے گا اور ہمارے فیصلہ ساز وہیں پھنس جائیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کے مسودے کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان پر کُل قرض دراصل سالانہ پیداوار کا 72 فی صد ہے اور ریاستِ پاکستان نے 6 فی صد کے لگ بھگ ضمانتیں بھی جاری کی ہوئی ہیں۔
گویا بھائی لوگ پہلے سے ہی حد پار کرچکے ہیں اور ابIMFوغیرہ کے کہنے پر یہ قانون سازی ہورہی ہے۔ اور اس دفعہ تھوڑا سا سوچ لیا گیا ہے اور نئے قانون میں مستقبل کی پیش بندی کرلی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کی سالانہ پیداوار کو 295 ارب ڈالر سے بڑھا کر 345 ارب ڈالر کرلیا گیا ہے اور قومی ادارےState Owned Enterprises (SOEs)کو خودمختار کرنے کا قانون بھی آیا چاہتا ہے۔ کیوں کہ ان اداروں کی ضمانتی ادائیگیاں 5000 ارب روپے سے تجاوز کرچکی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہIMFاس میں شامل نہیں ہے۔ اتنی عقلIMFمیں ہی ہے، کیوں کہ مزید قرض جو دینا ہے۔
محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
1997ء ایشیائی کرنسی بحران میں پاکستان کے لیے سبق
1997ء میں ایشیائی کرنسی بحران میں مشرقِ بعید کے تمام ممالک خاص طور پر‘ اور دُنیا کے دیگر ممالک عام طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے متأثر ہوئے تھے، جنھیں آج کا پاکستان ب…
سیاسی طُفیلیے اور معاشی مسائل کا حل
بقا کے لیے جدوجہد ہر مخلوق کا خاصہ ہے۔ اور یہ معاملہ انسان کو درپیش ہو تو جدوجہد اجتماعیت کا رنگ لیے بغیر نہیں رہتی۔ اعلیٰ درجے کی اجتماعیت قائم کرنے کے لیے شعوری جدوجہد …
معاشی بقا میں آفت زدہ پاکستانیوں کا کردار
اگست 2022ء میں سب مشکل میں تھے۔ ڈالر اور مہنگائی بے لگام تھے۔ آئی ایم ایف سرکار نالاں تھی کہ پاکستان وعدہ خلاف ہے۔ اس تناظر میں سب سانس روک کر بیٹھے تھے کہ کہیں 1.2 ارب …
اور آئی ایم ایف پھر مان گیا
آئی ایم ایف کی عالمی حیثیت ایک بینک کی سی ہے، جس کا کام دیگر ممالک کو اس لیے قرض دینا ہے، تاکہ لین دین کا عالمی نظام اضمحلال کا شکار نہ ہونے پائے اور اس تناظر میں مقامی …