پشاور کیمپس کا قیام اور حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کی خدمات کا اعتراف

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
نومبر 14, 2022 - خطباتِ جمعتہ المبارک
پشاور کیمپس کا قیام  اور حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کی خدمات کا اعتراف

۲۴؍ ربیع الاوّل۱۴۴۴ھ / 21؍ اکتوبر 2022ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) پشاور کیمپس کے افتتاح کے موقع پر خطبہ جمعتہ المبارک ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا:

’’معزز دوستو! ہمارے لیے یہ بہت ہی مبارک باد کا موقع ہے کہ ہم یہاں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ پشاور کیمپس کی افتتاحی تقریب میں جمع ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا اور اس کے دین کے غلبے کے لیے جو مشن اور فکر حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد  رائے پوریؒ نے شروع کیا تھا، وہ آج پھلتا پھولتا ہوا مسلسل ترقیات کی منازل طے کر رہا ہے۔ الحمد للہ! حضرتؒ کی دعاؤں، توجہات، سلسلۂ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے فیض اور حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فکر و عمل کے فروغ کی برکات ہیں کہ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا فکر، جس کا عزم آج سے تین چار سو سال پہلے ولی اللّٰہی سلسلے کی جماعت نے کیا تھا، وہ پاکستان میں بالخصوص ترقیات کے مراحل طے کر رہا ہے۔ نوجوانوں میں جو دین کی طلب اور تڑپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ نے محسوس کی تھی، اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے پہلے جمعیت طلبائے اسلام (1967ء)، پھر تنظیمِ فکرِ ولی اللّٰہی (1987ء) اور پھر 2001ء میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ کی صورت میں اولیاء اللہ کے اس فکر کو پھیلانے کے لیے جو جدوجہد اور کوشش کی تھی، آج وہ تن آور درخت بن چکا ہے۔ اس سے یقینا حضرت اقدس رحمۃ اللہ علیہ کی روح ضرور خوش ہوگی۔

پھر پشاور کیمپس کا افتتاح ایک ایسے مبارک مہینے ربیع الاوّل میں ہو رہا ہے، جو نبی اکرم ﷺ سے نسبت رکھتا ہے۔ آپؐ اسی ماہِ مبارک میں دنیا میں تشریف لائے،ا سی ماہِ مبارک میں وحیٔ الٰہی کی ابتدائی صورت سچے خوابوں کی شکل میں آپؐ پر ظاہر ہونا شروع ہوئی۔ اسی مبارک مہینے میں آپؐ نے مدینہ منورہ ہجرت کرکے ریاستِ مدینہ کی تشکیل کی۔ اور یہی مبارک مہینہ ہے، جس میں نبی اکرمؐ اپنا مشن مکمل کرکے اللہ کے حضور تشریف لے گئے۔ رسول اللہؐ کی بعثت کا بنیادی مقصد دنیا میں دینِ حق کو تمام باطل ادیان پر غالب کرنا تھا۔ (-9 التوبہ: 33) دشمن چاہتا ہے کہ وہ اللہ کے اس نور کو اپنے منہ سے بجھا دے، اس چراغ کو گُل کردے، لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نور کو کامل کرکے چھوڑے گا۔ (التوبہ: 32) اللہ کے نور کو روشن کرنا اور پھر اسے مکمل کرنا اور پھر اسے غالب کرنا‘ اس کا واحد ذریعہ تبلیغ ہے، جس کا رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا۔ (-5 المائدہ: 67)

ادارہ رحیمیہ پشاور کیمپس کا قیام اسی تبلیغ کے تسلسل کا اگلا پڑاؤ ہے۔ اس پر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم ملک کے ایک اہم ترین شہر پشاور میں تعلیم و تعلّم اور تربیت کے سلسلے کو مزید منظم کرنے، دوستوں کے ذہن اور فکر کو آگے بڑھانے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی کے ساتھ آگے بڑھنے کی پوزیشن میں آچکے ہیں‘‘۔

آپؐ کو حقِ رسالت کی ادائیگی کا حکمِ خداوندی

اور نصرتِ الٰہی کا وعدہ

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! جو آپ پر ہمارا حکم نازل کیا جاچکا ہے، اس کی آپ تبلیغ کیجیے‘‘۔ (-5 المائدہ: 67) رسول اُس ذات کو کہا جاتا ہے کہ جو انسانوں پر باقاعدہ حکمران بنا کر، اتھارٹی بنا کر بھیجا جائے اور وہ احکامات کا نفاذ کرنے اور نظام قائم کرنے والا ہو۔ حکمرانِ حقیقی اور فرماں روائے کائنات کا پیغام لوگوں تک پہنچا دینا‘ آپؐ کی ذمہ داری ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ مشہور تابعی مجاہد ابن جبرؒ فرماتے ہیں کہ ہم سے صحابہؓ نے یہ بات بیان کی ہے کہ رسول اللہؐ پر جب یہ آیت ’’ ﵟيَٰٓأَيُّهَا ٱلرَّسُولُ بَلِّغۡ مَآ أُنزِلَ إِلَيۡكَ مِن رَّبِّكَۖ ﵞ  ‘‘ (-5 المائدہ: 67) کا اتنا ٹکڑا نازل ہوا تو رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’إنّما أنا واحد، کیف أصنع؟‘‘ (میں تو اکیلا ہوں، یہ کام میں کیسے کر پاؤں گا؟) سارے انسان میرے مخالف ہو کر میرے خلاف جمع ہوچکے ہیں۔ یہ کام کرنا تو بڑا مشکل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے تعجب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کیا۔ اس کے جواب میں اللہ پاک نے اگلی آیت نازل کردی کہ: اے محمدؐ! اگر آپ نے یہ کام نہیں کیا، آپ نے اس ذمہ داری کا عزم نہ کیا تو آپ کو جو ہم نے رسالت اور حکومت دی ہے، اور جو اتھارٹی دی ہے، آپ نے اُس کا حق ادا نہیں کیا۔

باقی رہی یہ بات کہ آپ کہتے ہیں کہ میرے خلاف سارے لوگ جمع ہیں، تو ’’ان تمام انسانوں کی مقابلے پر اللہ آپ کی حفاظت کا ذمہ دار ہے‘‘۔ (-5 المائدہ: 67) آپ کی حفاظت اللہ نے اپنے ذمے لے لی ہے۔ ساری دنیا مخالف ہے تو ہوتی رہے۔ سارے قبیلے آپ کے مخالف ہوں تو ہوتے رہیں۔ آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ جو جو حکم اس کتاب میں نازل ہوا ہے، آپ کو وہ ٹھیک ٹھیک آگے پہنچانا ہے۔ اس میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی۔ اور اگر ایک ذرا سا بھی حکم آپ نے آگے نہیں پہنچایا، تو آپ رسالت کا حق ادا کرنے والے نہیں ہیں۔ یہ نہیں کہ اس دینِ حق کی کچھ باتیں آپ پہنچا دیں اور کچھ باتیں اس لیے بیان نہ کریں کہ شاید اس کے نتیجے میں لوگ آہستہ آہستہ دین میں آجائیں گے! نہیں! جو حکم اللہ نے دے دیا ہے، آپ کو ہر حال میں یہ پہنچانا ہے۔

رسول اللہؐ کے نائبین حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرفاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علی المرتضیٰؓ، حضرت امیر معاویہؓ، حضرات حسنینؓ اور بعد میں آنے والے اولوالعزم اولیاء اللہ اور علمائے ربانیین نے ہر دور میں جب دعوت کا آغاز کیا اور اللہ تعالیٰ کے کامل و مکمل پیغام کو منتقل کیا تو دراصل وہ اکیلے تھے۔ ان کی کیفیت ایسی ہی تھی کہ: ’’إنّما أنا واحد، کیف أصنع؟‘‘ (میں تو اکیلا ہوں، یہ دین آگے منتقل کیسے ہوگا؟)۔ لیکن انھوں نے مخلصین کی جماعت تیار کی اور جماعت کی اجتماعی طاقت نے مل کر اس پیغام کو آگے مکمل منتقل کیا۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ نے قیامِ پاکستان کے بعد جب دین کے مکمل پیغام کو آگے منتقل کیا تو وہ بھی اکیلے تھے، ہر طرف مخالفت اور جعلی فتوؤں کا سیلاب تھا، لیکن آپؒ ڈٹے رہے، جماعت تیار کی، ادارے بنائے، جس کا تسلسل پشاور کیمپس اور دیگر شہروں میں ادارے کے کیمپسز (campuses) کا وجود ہمارے سامنے ہے‘‘۔

سوادِ اعظم کا حقیقی مفہوم

اور حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کی مثالی استقامت

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’حضرت مجدد الف ثانیؒ نے جب دین (شریعت، طریقت اور سیاست) کے مکمل پیغام کو آگے منتقل کرنے کا کام شروع کیا تو یہاں سارے بڑے بڑے پیر اور مولوی مخالف ہوگئے۔ فتوے لگانے شروع کردیے۔ حدیثیں سنانی شروع کردیں کہــ’’سوادِ اعظم کی اتباع کرو‘‘۔ کیوں کہ سوادِ اعظم تو ہمارے ساتھ ہے، آپ اکیلے ہیں۔ تو مجدد صاحبؒ نے یہی جواب دیا کہ: ’’ایک اللہ والا، جو اللہ کے دین کے مکمل پروگرام کے غلبے کے لیے کام کرے، وہ خود ہی سوادِ اعظم ہے‘‘۔ (مکتوباتِ امامِ ربانی حضرت مجددؒ)

بنیادی بات یہ ہے کہ کامل تبلیغ کا یہ وہ تسلسل ہے، جو رسول اللہ ﷺ سے چل کر حضرت مجدد الف ثانیؒ، امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے ہوتے ہوئے حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن، امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ، حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ، مفتیٔ اعظم حضرت مفتی کفایت اللہ دہلویؒ تک پہنچا۔

پاکستانیو! تم اللہ کا شکر ادا کرو کہ اُن تمام بزرگوں کے اس تسلسل کو ایک آدمی حضرت مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کی جماعت نے تم تک پہنچایا۔ حال آںکہ اپنے بھی مخالف، باہر کے بھی مخالف، ساری طرف سے فتوؤں کی یلغار، انھوں نے کہا کہ اگرچہ میں اکیلا ہوں، لیکن رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ذمہ داری ہے کہ دینِ اسلام کا پورا پیغام نئی نسل تک منتقل کرنا ہے۔ 1950ء میں پاکستان آئے تو اکیلے تھے۔ ان کی جدوجہد کی پوری تاریخ ہے۔ پہلے جمعیت طلبائے اسلام کی چھتری بنا کر نوجوانوں کو دینِ حق کا یہ پیغام دیا۔ شرپسندوں نے اُس میں تخریب پیدا کردی۔ پھر تنظیم فکرِ ولی اللّٰہی بنائی اور شرپسند دائرے کو باہر نکال کر امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فکر کو درست تناظر میں سمجھنے کے لیے ایک منظم جدوجہد کی، ایک بلند فکر اور نظریے پر اس کے لیے کردار ادا کیا۔

پھر اس فکر اور نظریے کو درست منہج پر رکھنے کے لیے مراکز قائم کیے۔ ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ کا مرکز بنایا، تاکہ ان تمام جدوجہد کو منظم اور مربوط کرکے اُس کے لیے کردار ادا کیا جائے کہ وہ جامع اور مکمل فکر جو رسول اللہ ﷺ نے انسانیت کو دیا تھا، اور اُس کا عقائد سے لے کر جہاد و قتال تک، ایمان سے لے کر فرائض تک، تمام دین کا مکمل اور جامع پروگرام امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی فلاسفی کی روشنی میں انسانیت کے سامنے رکھا جائے۔

آپؒ کی پچاس سال کی جدوجہد کے نتیجے میں جو سمجھ دار لوگ آپ کے ساتھ وابستہ ہوئے، اُن کو شاہ صاحبؒ کی براہِ راست کتابوں اور تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزارنے کے عمل، اُس کے فروغ اور نشر و اشاعت کے لیے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ کی بنیاد رکھی۔ پورے علومِ قرآنیہ کے پھیلانے کا انسٹیٹیوٹ بنایا۔ چناں چہ ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے لیے 27؍ جولائی 2001ء کو ایک جگہ خریدی گئی اور 14؍ ستمبر 2001ء کو درسِ قرآن حکیم سے اُس کا افتتاح ہوا‘‘۔

 

 

 

پاکستان میں ولی اللّٰہی فکر و نظریے کی حامل اجتماعیت

کے دائرۂ کار کا جامع خلاصہ

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’2001ء میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کی افتتاحی تقریب میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کی موجودگی میں ادارہ کے مقاصد و اہداف واضح کرتے ہوئے ہم نے (درجِ ذیل) دس اُمور واضح کیے تھے، جو دینِ اسلام کی مکمل جامعیت کے حامل ہیں۔ اور انھیں مقاصد و اہداف پر آج بھی ادارہ عمل پیرا ہے:

الف:       علومِ قرآنیہ کی بنیادی اور حقیقی تعلیمات نوجوان نسل کے سامنے پیش کرنا ، اس کے لیے علومِ قرآنیہ کے چار بنیادی شعبوں؛ تفسیر، حدیث، فقہ اور سلوک و طریقت کے حوالے سے:

                                1۔           قرآن حکیم کی مستند تفسیر کا شعور پیدا کرنا

                                2۔           احادیث ِنبویہؐ کی مسلمہ تشریح سے آگہی دینا

                                3۔          فقہ اور قانونِ اسلامی کی اجماعی تفہیم واضح کرنا

                                4۔            دینی تصوف اور سلوک و طریقت کی اساس پر باطنی تربیت اور تزکیۂ قلوب

                                                                کے لیے انسانیت کے بنیادی اخلاق پر تربیت کرنا

ب:                         انسانی سماج کی تشکیل کے بنیادی علوم اور ان کے قرآنی اصول سے واقفیت بہم پہنچانا:

                                5۔           عمرانیات (Sociology) اور اس کے قرآنی اصول

                                6۔           سیاسیات (Political Science) اور اس کے قرآنی اصول

                                7۔          معاشیات (Economics) اور اس کے قرآنی اصول

                                8۔           تاریخ (History) اور اس کے قرآنی اصول

                                9۔           فلسفہ (Philosophy) اور اس کے قرآنی اصول

                                10۔ حالاتِ حاضرہ اور قرآنی نقطۂ نظر سے ان کا تجزیہ کرنا

یہ ادارے کے قیام کا دس نکاتی ایجنڈا ہے۔ الحمد للہ! ان بیس بائیس سالوں میں اس ایجنڈے کے مطابق تمام مراکز میں علومِ قرآنیہIاورIIکے نصاب کے مطابق تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری ہے۔ نیز اب علومِ قرآنیہIIIکا نصاب بھی تیار ہے۔

یاد رکھئے! عمارتیں اصل نہیں ہوتیں۔ حضرتؒ فرمایا کرتے تھے کہ: ’’عمارت تو ایک مورچہ ہوتا ہے۔ اصل تو وہ کام اور مقصد ہوتا ہے، جس کی بنیاد پر جدوجہد اور کوشش کی جاتی ہے‘‘۔ الحمد للہ! اب ہمارے پاس یہ جگہ دستیاب ہوگئی۔ اب اس جگہ میں ہمارا کام مزید بڑھنا چاہیے۔ اور اس اُصول پر علومِ قرآنیہ کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ ضرور بڑھنا چاہیے اور بڑھے گا ان شاء اللہ! ہم سب مل کر اجتماعی طور پر پوری لگن، ذوق شوق کے ساتھ اس کے لیے مزید آگے کام کریں گے تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی روح بھی خوش ہوگی۔ اللہ تعالیٰ بھی راضی ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ کا پیغام منتقل ہوگا تو آپؐ کی محبت اور عشق اور ربیع الاوّل کے مہینے کی برکات بھی ہمیں حاصل ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں پوری توانائی اور شعور کے ساتھ، منظم انداز میں جدوجہد اور کوشش کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

ادارہ رحیمیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کیمپس کا افتتاح

۲۱؍ ربیع الثانی ۱۴۴۰ھ / 7؍ دسمبر 2020ء بروز پیر وہ بابرکت دن تھا، جب ٹوبہ ٹیک سنگھ میں جناب ڈاکٹر محمدعنبر فرید اور اُن کے خاندان کی عطیہ کردہ جگہ پر ادارہ رحیمیہ علومِ قر…

انیس احمد سجاد جنوری 08, 2021

قرآن حکیم کی تعلیم و تربیت

18؍ دسمبر 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ میں 17 روزہ دورۂ تفسیرِ قرآن کے افتتاح کے موقع پر خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا: &…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جنوری 09, 2021

ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کا قیام و پس منظر، بنیادی مقاصد، تعلیمی و تربیتی سرگرمیاں

ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کا قیام ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ)ایک دینی، تعلیمی اور تربیتی مرکز ہے۔ یہ اپنی وقیع علمی حیثیت اور دین اسلام کے نظامِ فکروعمل کی شعوری تر…

ایڈمن فروری 10, 2021

مذہب لڑائی کا ذریعہ نہیں ہے

’’1920ء کے بعد دنیا نے یہ طے کرلیا کہ ریاستیں قومی تناظر میں وجود میں لائی جائیں گی۔ قوم کی جان، مال، رنگ، نسل، مذہب کا تحفظ ہوگا اور جمہوری اور ادارتی بنیاد…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جولائی 07, 2020