متعدی امراض سے متعلق نبویؐ تعلیمات

متعدی امراض سے متعلق نبویؐ تعلیمات

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَؓ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ’’لاَ عَدْوَی، وَ لاَ طِیَرۃَ، وَ لاَ ہَامَّۃَ، وَ لاَ صَفَرَ، وَ فِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ کَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ۔‘‘ [البخاری: 5707]
(حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا، اور نہ کوئی پرندہ منحوس ہوتا، اور نہ اُلو میں نحوست ہوتی ہے، اور نہ ہی ماہِ صفر میں کوئی نحوست ہے۔ اور کوڑھ کے مریض سے ایسے بھاگو جیسے تم شیر سے بھاگتے ہو۔) 
اس حدیث کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں علم و شعور کے برخلاف جہالت پر مبنی کچھ مزعومہ تصورات کا ردّ کیا گیا ہے اور اصل حقیقت واضح کی گئی ہے۔ حضور ﷺ کے زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ ’’عَدْوَی‘‘ یعنی ایک مریض کا مرض ازخود دوسرے مریض کو ہر حال میں منتقل ہوجاتا ہے۔ چناںچہ اونٹ پالنے والے عربوں میں یہ تصور تھا کہ خارشی اونٹ سے ہی دوسرے اونٹ کو خارش کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ وہ موت کا اصل سبب اسی کو قرار دیتے تھے۔ حضوؐر نے اس تصور کی نفی کی اور فرمایا کہ: ’’لاَ عَدْوَی‘‘ یعنی کسی کا مرض کسی دوسرے میں سرایت نہیں کرتا۔ چناںچہ جب حضوؐر نے یہ بات فرمائی تو ایک دیہاتی نے کھڑے ہو کر کہا کہ: ’’ہمارے اونٹ ہرنیوں کی طرح چوکڑی بھرتے اور صحت مند ہوتے ہیں، لیکن ایک خارشی اونٹ ان میں داخل ہو کر سب کو خارش کا مریض بنا دیتا ہے۔‘‘ اس پر حضوؐر نے فرمایا: ’’فمن أعدی الأوّل؟‘‘ [رواہ البخاری: 5775] (سب سے پہلے والے اونٹ میں کس نے مرض پیدا کیا؟)، یعنی پہلے مریض (zero patient) میں کس نے مرض پیدا کیا؟ اسی طرح زمانۂ جاہلیت میں مرض کی طرح چند دیگر اشیا، مخصوص پرندوں، صفر کے مہینے وغیرہ میں بھی نحوست کے تصورات بھی رواج پذیر تھے۔ اس حدیث میں حضوؐر نے ایسے تمام تصورات کو بھی رد کردیا۔ حدیث کا یہ حصہ دیگر حضرات صحابہ کرامؓ؛ عبداللہ بن مسعودؓ، عائشہ صدیقہؓ، ابن عمرؓ، ابن عباسؓ، جابرؓ اور انس بن مالکؓ سے بھی مروی ہے۔ حدیث کا یہ حصہ ’’مشہور‘‘ احادیث میں سے ہے۔ 
اس حدیث میں آپؐ نے واضح کیا کہ اس کرۂ ارض پر پیدا ہونے والے امراض، موجود اشیا اور گردشِ زمانہ سے وجود میں آنے والے ماہ و ایام ایک طے شدہ نظام کے تحت کام کر رہے ہیں۔ ان میں ذاتی طور پر کوئی ’’سعد‘‘ اور ’’نحس‘‘ نہیں ہوتا۔ اللہ کی ذات پر توکل و اعتماد اور اس کے نظام پر پختہ یقین ہونا ایک مؤمن کی خصوصیت ہے۔ 
اس حدیث کے آخری حصے میں فرمایا: ’’جس آدمی کو کوڑھ کا موذی مرض لاحق ہوجائے تو اس سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔‘‘ حضرت عائشہؓ سے ایک روایت میں ہے کہ: ’’لا عدوی، و إذا رأیت المجذوم ففرّہٗ کما تفرّ من الأسد‘‘ (کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا، اور جب تم کسی کوڑھی کو دیکھو تو اس سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہیں)۔ [رواہ ابن خزیمہ فی ’’کتاب التّوکُّل‘‘] اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ سے ایک روایت میں مروی ہے کہ : ’’لا یُوردنّ ممرض علٰی مصحّ‘‘ [رواہ مسلم: 5791] (کسی مریض جانور کو صحیح جانور کے سامنے مت لاؤ)۔ لیکن حضرت جابرؓ سے یہ روایت بھی مروی ہے کہ: ’’رسول اللہ ﷺ نے کوڑھی کے مریض کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ اپنے کھانے کے برتن میں داخل کیا۔ پھر اس سے فرمایا کہ: ’’بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ اور اللہ پر اعتماد اور اُس پر توکل کرو۔‘‘ [رواہ التّرمذی: 1817] اسی طرح حضرت عائشہؓ سے ایک عورت نے کوڑھی کے بارے میں سوال کیا تو آپؓ نے فرمایا کہ: ’’حضوؐر نے فرمایا ہے کہ: ’’لاعدوَی‘‘۔ پھر فرمایا کہ: ’’میرا ایک غلام اس مرض میں مبتلا تھا۔ وہ میرے برتن میں کھاتا تھا، میرے پیالے میں پیتا تھا اور میرے بستر پر سوتا تھا۔‘‘ [أخرجہ الطّبری، قالہٗ ابن حجر فی ’’فتح الباری شرح البُخاری‘‘] 
مشہور محدث حافظ ابنِ حجر ’’شرح بخاری‘‘ میں فرماتے ہیں کہ: ’’کوڑھی کے سلسلے میں مختلف احادیث وارد ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے حضرت عمرؓ اور سلف صالحین کی ایک جماعت کا مسلک یہ ہے کہ کوڑھی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا درست ہے اور اس سے دور رہنے سے متعلق جو روایات ہیں، وہ منسوخ ہیں۔ لیکن دیگر حضرات کی رائے یہ ہے کہ ان دونوں حدیثوں میں تطبیق کی جاسکتی ہے کہ کوڑھی کے مریض سے دور رہنا احتیاط کے طور پر ہے اور حضوؐر کا اس کے ساتھ ایک برتن میں کھانا شرعی جواز کو بیان کرنا ہے۔‘‘ [فتح الباری شرح البخاری، کتاب الطّبّ، ج:10، ص: 158-59] 
ان احادیث کی تشریح کرتے ہوئے حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ: ’’ایک آدمی سے دوسرے آدمی میں مرض سرایت نہ کرنے کا قطعاً مطلب یہ نہیں کہ کسی مریض سے تندرست آدمی میں کوئی مرض بالکل منتقل نہیں ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ عرب لوگ اس کو ایک مستقل سبب سمجھتے تھے۔ وہ اللہ پر سِرے سے توکل اور اعتماد کرنا بھول چکے تھے۔ حق اور سچی بات یہ ہے کہ کسی مریض کا مرض دوسرے لوگوں میں بیماری کا باعث تبھی ہوتا ہے، جب اللہ تعالیٰ کا حکم اور قضا اُس کے خلاف کام نہ کر رہی ہو۔ اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم جاری ہوتا ہے تو اسباب کے نظام کو باقی رکھتے ہوئے وہ نافذ ہوجاتا ہے۔ اس نکتے کو شریعت کی زبانی یوں تعبیر کیا گیا کہ کسی مریض سے دوسرے آدمی کو مرض لاحق ہونا ’’اسبابِ عقلیہ‘‘ میں سے نہیں ہے، بلکہ کائنات میں جاری دیگر ’’اسبابِ عادیہ‘‘ کی طرح صرف ایک سبب ہے۔‘‘ [حجۃ اللہ البالغہ، بیان الطب، ص:489]
’’سبب ِعقلی‘‘ وہ ہے کہ اگر وہ سبب پایا جائے تو لازمی طور پر اُس کا مسبَّب پایا جائے۔ ’’سبب ِعادی‘‘ وہ ہوتا ہے کہ جو کسی مسبَّب کے دیگر اسباب میں سے ایک سبب بن جاتا ہو۔ شاہ صاحبؒ کی اس تشریح سے معلوم ہوا کہ متعدی مرض تبھی دوسرے انسانوں میں سرایت کرتا ہے، جب دیگر اسباب مثلاً قوتِ مدافعت (immunity) وغیرہ کمزور ہوں اور اللہ تعالیٰ کا حکم بھی کارفرما ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جانوروں اور انسانوں کی صحت اور مرض کا فطری نظام بنایا ہے، جو اسباب و مسبّبات کے تحت کام کرتا ہے۔ انسان جب انسانیت سے بغاوت کرتے ہوئے خلافِ فطرت کام کرتا ہے تو اسباب و مسبّب کے نظام کے تحت امراض پیدا ہوتے ہیں۔ چناںچہ ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرے، لیکن خوف اور وہم میں مبتلا نہ ہو، بلکہ اللہ تعالیٰ پر مکمل اعتماد اور ایمان و یقین رکھتے ہوئے پورے اعتماد اور حوصلے کے ساتھ کام کرے۔ 

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...