اگست 2022ء میں سب مشکل میں تھے۔ ڈالر اور مہنگائی بے لگام تھے۔ آئی ایم ایف سرکار نالاں تھی کہ پاکستان وعدہ خلاف ہے۔ اس تناظر میں سب سانس روک کر بیٹھے تھے کہ کہیں 1.2 ارب ڈالر کی قسط کی ادائیگی میں مشکلات نہ حائل ہوجائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس مالیاتی سال میں آئی ایم ایف کے بعد 40ارب ڈالر کے لگ بھگ قرض چاہیے، تاکہ پہلے سے لیے گئے ڈالر سود سمیت واپس کیے جاسکیں اور کچھ اپنی گزران بھی کرلی جائے۔ سیاسی ابتری تازہ دم تھی اور اس میں روز افزوں ترقی ہورہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ 2022-23ء کا مالیاتی سال گزارنا شاید مشکل ہوجائے۔
پھر منظر یک دم تبدیل ہونے لگتا ہے اور پاکستانی مقتدرہ کا محبوب ترین تحفہ سیلاب کی تباہ کاری اور آفت میںمتشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔ آفات قدرتی ہوں یا انسانوں کی پیدا کردہ، اس میں ہم خاصے خود کفیل ہیں اور ملک پاکستان کسی بھی صورت ان سے چھٹکارا نہیں پاتا۔ اور 2022ء جیسے سیلاب تو صدیوں میں آتے ہیں۔ ان کا ڈیٹا اور تباہ کاریاں دکھا کر ناراض ساہوکاروں اور ڈونرز کو آسانی سے راضی کیا جاسکتا ہے۔ اب ایسی تباہی قسمت والوں کو ہی ملتی ہے۔ کوئی کیسی ہی کوشش کرلے، اس سطح کا انسانی المیہ پیدا کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ اس کے لیے معلوم نہیں کتنے افسران کو گالیاں سننی پڑیں اور نااہلی کا تاج سر پر سجانا پڑے، اس لیے عافیت اسی میں ہے کہ قدرتی آفت کو انسانی المیے میں بدل دیا جائے اور امداد کے خشک چشموں کو پھر سے آباد کردیا جائے۔ اس طرح دو مسئلے حل ہو جائیں گے: ایک امدادی پیسہ آئے گا، جو قرضوں کی ادائیگی میں استعمال ہوجائے گا اور دوسرا پہلے سے کمزور اور ناقص کام پر بھی پردہ پڑجائے گا اور نئے سرے سے ترقیاتی کام شروع کیے جاسکیں گے۔
مسئلہ یہ ہے کہ 2020ء میں ہمیں کرونا کی صورت میں ایک موقع ملا تھا، لیکن اس وقت کی نااہل حکومت نے اس سے اتنا فائدہ نہیں اٹھایا جتنا حق بنتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں انتظامیہ صرف اموات کی گنتی ہی پوری کرتی رہی، تاکہ مقامی بجٹ اور عالمی امداد کے چشمے خشک نہ ہونے پائیں، لیکن عوام الناس اس بات سے بے خبر و بے اثر اپنی معمول کی زندگی گزارتی رہی اور ایک نادر موقع ہاتھ سے جاتا رہا۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاری میں کل 32 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے اور حالیہ سیلاب 2010ء کے مقابلے میں تین گناہ زیادہ تباہ کن ہے۔ ایسے میں ایشین ڈیویلپمنٹ بینک ڈیڑھ ارب ڈالر، ایشین انفراسٹرکچر بینک نصف ارب ڈالر، ورلڈ بینک دو ارب ڈالر قرض کی سہولت پر تیزی سے کام کررہے ہیں۔ گویا چار ارب ڈالر اگلے ایک سے ڈیرھ سال میں ہماری معیشت کو مل جائیں گے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کو پھر نرمی دکھانی ہوگی اور یوں دیگر امیر ممالک ہماری حالتِ زار پر آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ کچھ عطا بھی کردیں گے۔
اس کی بدولت موجودہ مالی سال کے دوران جو ادائیگیوں کا عدم توازن اور قرضوں کی ادائیگیوں کا چیلنج موجود تھا، نہ صرف قابو میں آجائے گا، بلکہ مزید قرض بھی غریب پاکستانیوں کی امیر مقتدرہ کو مل سکے گا۔ گویا پہلے سے موجود قرض کے عظیم بھنڈار میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اسے اُتارے گا کون؟ وہ اگلے سال دیکھیں گے! کیوں کہ ہمارے پاس بے چاری عوام ہے جو قربانی کے لیے ہمہ وقت تیار ہے اور شاید ایک اور آفت ہماری منتظر ہو!
محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
قرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
پاکستان کو موجودہ مالی سال کے آمدہ چار ماہ میں قرضوں کی ادائیگی اور اپنی ضروریات کے لیے 10 ارب ڈالر کا اضافی قرض درکار ہے اور آمدہ مالی سال کے دوران انھی مدات میں 20 سے …
سیاسی طُفیلیے اور معاشی مسائل کا حل
بقا کے لیے جدوجہد ہر مخلوق کا خاصہ ہے۔ اور یہ معاملہ انسان کو درپیش ہو تو جدوجہد اجتماعیت کا رنگ لیے بغیر نہیں رہتی۔ اعلیٰ درجے کی اجتماعیت قائم کرنے کے لیے شعوری جدوجہد …
1997ء ایشیائی کرنسی بحران میں پاکستان کے لیے سبق
1997ء میں ایشیائی کرنسی بحران میں مشرقِ بعید کے تمام ممالک خاص طور پر‘ اور دُنیا کے دیگر ممالک عام طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے متأثر ہوئے تھے، جنھیں آج کا پاکستان ب…
گھر بنانے کا خواب
پاکستان کی آبادی ہر سال چالیس لاکھ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ برصغیر کے تناظر میں یہ افغانستان کے بعد سب سے زیادہ شرح نمو ہے ۔ایسے ہی شہروں کی طرف نقل مکانی کی سب سے زیادہ …