رُوس اور یوکرین جنگ نے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کو اس سے پیدا ہونے والے معاشی چیلنجز کے بھنورپر لاکھڑا کیا ہے۔ اس جنگی ماحول میں وزیر اعظم کا روس پہنچنا اور اندرونِ ملک عدمِ عتماد کی تحریک کے پیشِ نظر حکومت کی جانب سے ایک اور ایمینیسٹی سکیم کا اجرا، مہنگائی ریلیف پیکج، جس کے تحت ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میںکمی کا اعلان، جب کہ معیشت پرIMFکی گہری چھاپ ہو، معاملے کو بے حد پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس عالمی کشمکش میں رُوس کی جانب قدم اور اندرونِ ملک اس سیاسی کھینچا تانی کے معاشی مضمرات آخر کیا ہوں گے؟ اور بہ قول شخصے: کیا آزادی کی طرف یہ ہمارا فیصلہ کن قدم ہے؟ ہماری غلامی کی جڑیں کافی گہری اور مضبوط ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے آقا کو ہماری ضرورت پڑی تو ہماری اشرافیہ اور بااَثر سیاسی خانوادے فوراً متحرک ہوگئے ہیں۔ ایسے میں ہمیں یہ جائزہ لینا چاہیے کہ آیا اِن اعلانات کی کوئی بنیادیں ہیں؟ یا یہ کسی وقتی چیلنج سے مقابلہ کرنے کی ایک حکمتِ عملی ہے؟ یہ جو بھی ہے، لیکن تجربہ اور قرائن یہ بتا تے ہیں کہ اس کی قیمت بھی ہر دفعہ کی طرح قوم کو چکانی پڑے گی۔ اس بات کا غالب امکان ہے کہ نہ ہمیں آزادی ملے اور نہ ہی اس مہنگائی سے ریلیف۔ رہی بات ایمینیسٹی سکیم کی‘ تو ایسی سکیمیں ہر حکومت اپنے آخری دنوں میں ضرور لاتی ہیں، جو کرپٹ مقتدرہ کی سہولت کار ہوتی ہیں اور اس کا عام پاکستانی کی زندگی پر خاص اثر نہیں ہوتا۔
اس جنگ کی وجہ سے تیل کی درآمد میں 6 ارب ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب ریلیف پیکج کی وجہ سے تیل کی مقامی کھپت میں اضافہ اس صورتِ حال کو مزید خراب کرسکتا ہے۔ اسی طرح ملکی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درآمدی بل میں 40 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ریلیف پیکج کی وجہ سے خزانے کو 350 ارب روپے کا خرچ برداشت کرنا ہوگا، جسے ترقیاتی بجٹ کم کرکے اور مقامی بینکوں سے مزید قرض لے کر پورا کیا جائے گا۔ یوں ہی 6 سے 7 ارب ڈالر کا اضافی درآمدی بل دراصل پہلے سے موجود ضرورت میں اضافی ہوں گے۔ ملکی برآمدات کا 60 فی صد مغربی ممالک اور اُن کے اتحادیوں کو جاتا ہے۔ اسی طرح ان ممالک سے ترسیلاتِ زر کُل 30 فی صد وصول ہوتا ہے۔ یہ دونوں مدات مل کر سالانہ 27 ارب ڈالر بنتی ہیں۔ اس جنگی صورتِ حال اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں ایسی وصولیوں میں معمولی تبدیلی بھی پاکستان کی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے اورIMFسے کیے گئے وعدوں کی دوبارہ سے خلاف ورزی کی سزا کے طور پر اورFATFکے شکنجے میں مزید شدت کی صورت میںہمارا جاری کھاتوں کا خسارہ 17 سے 20 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے، جو پاکستانی روپے کو گرائے گا اور ممکن ہے کہ یہ 200 روپے فی ڈالر تک پہنچ جائے، جو مہنگائی کی ایک نئی لہر لائے گا اوراسے قابو میں لانے کے لیے آزاد مرکزی بینک شرح سود میں اضافہ کرے گا، جو بجٹ کے خسارے میں مزید اضافہ کرے گا۔ اسے پورا کرنے کے لیے حکومت مزید ٹیکس لگائے گی اور مہنگائی پھر سے تمام پچھلے ریکارڈ توڑ ڈالے گی۔ گویا وہ قوم جو گزشہ سال بیماری کی قیمت ادا کرتی رہی ہے، اب آزادی کی قیمت ادا کرے گی۔
ٹیگز
محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
معاشی بقا میں آفت زدہ پاکستانیوں کا کردار
اگست 2022ء میں سب مشکل میں تھے۔ ڈالر اور مہنگائی بے لگام تھے۔ آئی ایم ایف سرکار نالاں تھی کہ پاکستان وعدہ خلاف ہے۔ اس تناظر میں سب سانس روک کر بیٹھے تھے کہ کہیں 1.2 ارب …
گھر بنانے کا خواب
پاکستان کی آبادی ہر سال چالیس لاکھ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ برصغیر کے تناظر میں یہ افغانستان کے بعد سب سے زیادہ شرح نمو ہے ۔ایسے ہی شہروں کی طرف نقل مکانی کی سب سے زیادہ …
ڈالر سے محبت ہی بہت ہے؟
پاکستان پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا حجم 410 کھرب روپے کے لگ بھگ ہوچکا ہے۔ ایک سال کے دوران اس میں اوسطاً 30 کھرب روپوں کا اضافہ ہو ہی جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے اخراجا…
عالمی مالیاتی بحران ابھی ٹلا نہیں
ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی، برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے جدید مالیاتی نظام کی بنیاد رکھی تھی۔ مشترکہ سرمائے کی طاقت سے ان کمپنیوں نے برصغیر، مشرقِ بعید اور چین میں سترہویں اور اٹھار…