وَآمِنوا بِما أَنزَلتُ مُصَدِّقًا لِما مَعَكُم وَلا تَكونوا أَوَّلَ كافِرٍ بِهِ ۖ وَلا تَشتَروا بِآياتي ثَمَنًا قَليلًا وَإِيّايَ فَاتَّقونِ (41:2)
(اور مان لو اس کتاب کو جومیں نے اُتاری ہے۔ سچ بتانے والی ہے اس کتاب کو جو تمھارے پاس ہے۔ اور مت ہو سب میں اوّل منکر اس کے۔ اور نہ لو میری آیتوں پر مول تھوڑا۔ اور مجھ ہی سے بچتے رہو۔)
گزشتہ آیت میں بنی اسرائیل کی اصولی خرابیوں اور گمراہیوں کا سبب نعمتوں کی ناشکری اور معاہدات کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا۔ اس آیت میں واضح کیا جا رہا ہے کہ تمام تر نعمتوں کا تقاضا ہے کہ قرآن حکیم پر صدقِ دل سے ایمان لائیں۔ اللہ سے کیے ہوئے معاہدات کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ کے نازل کردہ احکامات کے اوّلین منکر نہ بنیں اور اللہ کی آیات کو چند دنیاوی مفادات کے بدلے میں فروخت نہ کریں۔
وَآمِنوا بِما أَنزَلتُ مُصَدِّقًا لِما مَعَكُم: اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے سب سے پہلے (1) اپنی نعمتوں کو یاد کرنے اور پھر (2) معاہدات کی پاسداری کرنے کے بعد (3) تیسرا حکم یہ دیا کہ جو کتابِ مقدس؛ قرآن حکیم کی صورت میں نازل کی گئی ہے، اس پر صدقِ دل سے ایمان لاؤ۔ اس لیے کہ یہ کتاب تمھارے پاس موجود کتاب تورات کی تصدیق کرتی ہے۔ اس طرح یہ اُصولی حقیقت واضح کی ہے کہ اللہ کی نازل کردہ تمام کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اس لیے کہ یہ کتابیں بنیادی عقائد اور اُصولوں میں وحدتِ فکر و عمل رکھتی ہیں۔ تمام انبیا علیہم السلام اپنی اُصولی تعلیمات کے سبب گویا کہ ایک نبی کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ چناںچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ خوش خبری دی تھی کہ ’’میں ایک رسول کی خوش خبری دینے والا ہوں، جو میرے بعد آئے گا اور اُس کا نام احمد ہوگا‘‘۔ (القرآن 6:61) اس طرح قرآن حکیم پر ایمان لانا دراصل تمام کتابوں پر ایمان لانا ہے اور اس کا انکار کرنا تمام کتابوں کے انکار اور کفر کے مترادف ہے۔
حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ اس حوالے سے تحریر فرماتے ہیں: ’’جاننا چاہیے کہ احکامِ قرآنی دربارہ اعتقادات، اور اَخبارِ انبیاؑ،و احوالِ آخرت، و اَوامر و نواہی (احکامات و ممنوعات میں) تورات وغیرہ کتبِ سابقہ کے موافق ہیں۔ ہاں ! بعض اوامر و نواہی میں نسخ (تغیر و تبدل) بھی کیا گیا ہے، مگر وہ تصدیق کے مخالف نہیں ہیں۔ تصدیق کے مخالف تکذیب (جھٹلانا) ہے اور ’’تکذیب‘‘ کسی کتابِ الٰہی کی ہو، بالکل کفر ہے۔‘‘
وَلا تَكونوا أَوَّلَ كافِرٍ بِهِ ۖ : یہ مدینہ منورہ میں موجود یہودیوں سے کہا جا رہا ہے کہ تم قرآن حکیم کا انکار کر کے اس کتابِ مقدس کے پہلے کافر مت بنو۔ حضرت شیخ الہندؒ تحریر فرماتے ہیں: ’’قرآن کی دیدہ دانستہ تکذیب کرنے والوں میں اوّل مت ہو کہ قیامت تک کے منکرین کا وبال تمھاری گردن پر ہو۔ مشرکینِ مکہ نے جو (قرآن حکیم کا) انکار کیا ہے، وہ جہل اور بے خبری کے سبب کیا ہے، دیدہ دانستہ ہرگز نہ تھا (اس لیے کہ ان پر اس سے پہلے کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی۔ کتب ِالٰہی کے علم کے باوجود ) اس میں تواوّل تم ہی ہوگے اور یہ کفر پہلے کفر سے سخت تر ہے۔‘‘
بنی اسرائیل پر تسلسل سے کتابیں نازل ہوتی رہیں۔ اس لیے ان کی جانب سے قرآن حکیم کے انکار سے یہ ہوگا کہ بنی اسماعیل اور دیگر اقوام __ جن پر پہلے کبھی کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی __ تمھیں دیکھ کر اس کتاب کا انکار کریں گے۔ اس طرح تم اوّلین کافر بن کر اُن کے کفر کا باعث بنوگے، جو عذابِ شدید کا سبب بنے گا۔
وَلا تَشتَروا بِآياتي ثَمَنًا قَليلًا: اس آیت میں دوسری جس بات سے منع کیا جا رہا ہے، وہ اللہ کی آیات کے بدلے میں دنیاوی مال و مفادات اُٹھانا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اہل علم اپنے علمی تقاضوں سے انحراف کرتے ہیں اور دنیاوی زندگی کی لذتوں اور مالی مفادات کے حصول کے چکر میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو اللہ کے احکامات کو عملی طور پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس طرح گویا کہ وہ اللہ کی آیات کو ’’ثمنِ قلیل‘‘ یعنی معمولی قیمت کے عوض فروخت کردیتے ہیں۔ دنیا کی ساری دولت آیاتِ الٰہی کے عوض میں جمع کرلی جائے، تب بھی وہ ’’ثمنِ قلیل‘‘ ہی شمار ہوگی۔ اس لیے کہ وہ احکاماتِ الٰہی، جن پر دنیا اور آخرت کے انعامات حاصل ہوتے ہیں، کے بدلے میں ساری دنیا کی دولت بھی ہیچ ہے، کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ وہ ان احکاماتِ الٰہیہ کا بہت معمولی معاوضہ اور قیمت ہے۔
اس آیتِ مبارکہ میں بنی اسرائیل کے علما کی اَخلاقی حالت کی خرابی اور نقص واضح کیا گیا ہے۔ علمائے یہود کا یہ طریقہ تھا کہ وہ اپنی طرف سے احکامات بیان کرکے اللہ کی طرف منسوب کردیتے تھے اور اس کے بدلے میں مال و دولت حاصل کرتے تھے۔ چناںچہ ان لوگوں کی حالت بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’سو افسوس ہے اُن لوگوں پر جو اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اُس سے کچھ روپیہ کمائیں۔‘‘ (72:2) اسی طرح حضور اقدس ﷺ نے مسلمانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: ’’جو آدمی ایسا علم __ جس سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے __ دنیا کے ساز و سامان اور مفادات کے لیے حاصل کرتا ہے، وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک بھی نہیں سونگھے گا۔‘‘ (سنن ابوداؤد) اسی لیے نبی اکرمؐ نے مسلمان اہل علم کو علمائے یہود کی اتباع کرنے سے منع فرمایا ہے۔
وَإِيّايَ فَاتَّقونِ: بنی اسرائیل کی خرابیاں بیان کرنے کے بعد اُنھیں تنبیہ کی جا رہی ہے کہ قرآن حکیم کا انکار اور آیاتِ الٰہی کی فروخت کے بجائے اللہ تبارک و تعالیٰ سے ڈریں اور تقویٰ اختیار کریں۔ تقویٰ کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ کتابِ مقدس قرآن حکیم پر صدقِ دل سے ایمان لائیں اور جو احکامات نبی اکرمؐ بیان فرما رہے ہیں، اُن کی پوری اتباع کریں۔ اُس متقی جماعت کا حصہ بنیں، جو دین کو غالب کرنے اور خلافت ِالٰہیہ کا نظام قائم کرنے کے لیے نبی اکرمؐ تیار کر رہے ہیں۔ احکاماتِ الٰہیہ کا عملی نظام قائم کرنے سے ہی خلافت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوا جاسکتا ہے۔ چند مالی مفادات اور مال و دولت کی محبت اور اس کے حصول کے لیے کفر و نفاق اختیار کرنا درست نہیں۔
ٹیگز
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...