جامع علم‘ انبیا علیہم السلام کی وراثت ہے!

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
اکتوبر 22, 2020 - خطباتِ جمعتہ المبارک
جامع علم‘ انبیا علیہم السلام کی وراثت ہے!

رپورٹ: سیّد نفیس مبارک ہمدانی، لاہور

11؍ ستمبر 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں جمعتہ المبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: 
’’معزز دوستو! انسانی معاشرے تبھی ترقی کرتے ہیں، جب وہاں ہر شعبے کے اہلِ علم موجود ہوں۔ جب تک کسی معاشرے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور شعور رکھنے والے موجود نہ ہوں، وہ معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ جہالت کی بنیاد پر معاشرے کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ جہالت انسانیت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اسی لیے انبیا علیہم السلام دنیا میں علوم کے فروغ کے لیے آتے ہیں۔ نبوت کا لفظی معنی ہی باخبر کرنا اور اطلاع دینا ہے۔ نبی وہ فرد ہے، جو اللہ کی طرف سے اس بات پر مامور ہوتا ہے کہ وہ سچ اور حق، صحیح اور درست علم انسانیت کو منتقل کرے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے علم کی خبر دے کہ اللہ کو انسانیت سے کیا مطلوب ہے۔ اسی علم کی اساس پر دنیا قائم ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے علم سے لے کر امام الانبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے علومِ نبوت تک تمام انسانی معاشرے انھیں انبیا علیہم السلام کی تعلیمات پر استوار ہوئے ہیں۔ ہر دور میں ان کے علوم سے انسانیت نے استفادہ کیا ہے۔انبیا علیہم السلام کے وارثین علمائے ربانیین ہوتے ہیں، جو انبیا علیہم السلام کے علوم انسانیت تک منتقل کرتے ہیں۔ 
ہم انسانی معاشرے میں انسانی اعمال کا جائزہ لیں تو ہر عمل کے پیچھے علم و شعور کارفرما ہوتا ہے۔ علم اعلیٰ ہوگا تو عمل بھی اچھا ہوگا۔ اگر علم موجود نہیں ہوگا تو جس پستی کی سطح پر علم کی حالت ہوگی، عمل بھی ویسا ہی ہوگا۔ اس لیے دینِ اسلام نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ معاشرے میں اعلیٰ علم کے حامل اہلِ علم اور علما ہوں، ہر ہر شعبے کے ماہرین موجود ہوں، جو انسانی سماج کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا علم اعلیٰ اور جامع ہوتا ہے۔ اس میں انسانی سماج سے متعلق علوم یعنی ’’ارتفاقات‘‘ (معاشی سہولتوں) کا علم بھی ہوتا ہے اور اللہ سے جوڑنے اور روح کی طاقت اور قوت پیدا کرنے کے علوم یعنی ’’اقترابات‘‘ (تقرب ِبارگاہِ الٰہی) کا علم بھی ہوتا ہے۔ 
دین اسلام میں انسانیت کو دو خانوں میں نہیں بانٹا گیا کہ ایک علم کو دُنیوی کہا جائے اور دوسرے علم کو دینی یا اُخروی کہا جائے۔ یہ تو زوال کے زمانے کی بات اور فکری پستی کا شاخسانہ ہے۔ جہالت کے زمانے اور غلامی کے اثرات ہیں۔ دنیاوی اور دینی علوم کا فرق انسان کے اعمال کے پیچھے کارفرما نیت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ: ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘‘ نیت تکبر اور غرور کی ہے تو اس علم کا استعمال اور اس کی بنیاد پر حکمرانی انتہائی بُری اور دنیا داری کی ہوگی۔ اگر حکومت کا مقصد امن و امان قائم کرنا، انسانی حقوق پورے کرناہو تو یہ دین داری ہے۔ اس لیے اہلِ علم وہ ہیں، جو علم کو انسانیت کے لیے استعمال کریں۔ ایسے اہلِ علم کی اساس پر سوسائٹی ترقی کرتی ہے۔‘‘ 
 

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...