دنیاکی وسیع مسلمان آبادیوں پر مشتمل مسلمان ملکوں میں آج بھی اسلامی حکومت اور اس کے قیام کی خواہش ایک دیرینہ خواب کی شکل میں موجود ہے۔ تاہم ہنوز آج کی موجود مسلم دنیا کا یہ خواب تشنۂ تعبیر ہے۔ کوئی ایک بھی مسلمان ملک اپنے ہاں اسلامی نظام کی موجودگی کا دعویٰ نہیں کرسکتا، کیوں کہ وہ کہیں سرمایہ داری نظام کے شکنجے میں ہے یا اسلام کا صرف نام استعمال کرنے والے طبقوں نے انھیں یرغمال بنا رکھا ہے اور انھوں نے شریعت اور اماراتِ اسلامی کے صرف کھوکھلے نعروں پر مذہب پسندوں کے دلوں کو بہلا رکھا ہے۔ افغانستان میں حالیہ تبدیلی نے ایک بار پھر حساس ذہن رکھنے والوں کو سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر اسلامی حکومت ہے کیا؟ اور کیا ہم مسلمان اپنے ہاں اصل شکل میں اسلامی نظام کو رائج کرنے میں سنجیدہ بھی ہیں؟ یا صرف اس نظام کو نعروں میں زندہ رکھے ہوئے ہیں؟
ایک طبقہ اگر نعروں سے چند قدم آگے بڑھتا ہے تو وہ اپنے خیال میں دستور میں چند اسلامی شقیں شامل کروا کے یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اب ملک کا دستور اسلامی ہوگیا ہے۔ جیسا کہ ہمارے دستور میں لکھا ہے کہ ’’ملک کا سربراہِ مملکت مسلمان ہو گا‘‘۔ ایسے ہی یہ شق کہ ’’اقتدارِ اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے‘‘۔ پھر ’’ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا‘‘۔ ایسی شقیں موجود ہونے کے باوصف عدلیہ، پارلیمنٹ اور انتظامی ڈھانچہ خالصتاً استعماری اور سرمایہ دارانہ اصولوں پر نہ صرف قائم رہتا ہے، بلکہ سو فی صد اپنی روح اور منشا کے مطابق سرمایہ پرستی سے پیدا ہونے والے بھیانک نتائج بھی دیتا ہے۔ پھر با وجود مسلمان اکثریت کا ملک ہونے کے اس کی اجتماعی، سماجی نفسیات اور رویے بھی اسی نظام کے تقاضوں کے عین مطابق ڈھلتے اور تشکیل پذیر ہوتے رہتے ہیں۔
اس سلسلے میں اصل چیز نظام کی تبدیلی اور سیاسی آزادی ہے۔ اگر کسی ملک میں نظام کی تبدیلی کے بغیر محض حکومت کی تبدیلی یا آئین ودستور میں چند بے ضرر نام نہاد اسلامی شقوں کی شمولیت کواسلامی حکومت کے قیام کا نام دے دیا جائے اورنظام پر وہی اصل قوتیں قابض رہیں، یا کسی اَن دیکھے ذریعے سے نظام پر انھیں قوتوں کا کنٹرول رہے جو اصل مسئلے کی جڑ تھیں، محض لوگوں کے احساسات کے ذائقے کی تبدیلی کے لیے کسی نئے طبقے کو حکومت کا موقع فراہم کردیا جائے تو نہ یہ حقیقی قومی انقلاب ہوگا اور نہ ہی اسلامی حکومت کا قیام ہوگا۔
دنیا میں ایسی حکومتیں اور ریاستیں درجنوں بھر ہیں، جو اس کھیل کا ایک طویل عرصے سے حصہ ہیں۔ مثلاً دنیا میں اس وقت مسلم اکثریت والے 57 ملکوں کی پہچان اسلامی ہونے کی ہے، لیکن اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ ان میں کتنے ہیں، جو سیاسی اور معاشی طور پر آزاد اور خودمختار ہیں؟ ان میں بعض ملک تو ایسے بھی ہیں جن کے ہاں بجلی اور گیس کے ریٹس عالمی اداروں کی مرضی سے طے ہوتے ہیں اور ان کے سالانہ بجٹ کی منظوری بھی وہیں سے آتی ہے، لیکن وہ اپنے تئیں آزاد بھی کہتے ہیں اور کہیں کہیں ’’اسلامی‘‘ کا لاحقہ یا سابقہ بھی ان کے نام کا حصہ دستوری طور پر ضروری اور لازمی ہے۔ ان کی حکومتوں کی تبدیلی اور الیکشن کے نتائج پر عالمی قوتوں کی گہری چھاپ کو بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے اور وہاں کے اجتماعی معاشرے اُس اسلامی سماجیات کی روح اور عدل کے نظام سے خالی ہیں، جو کبھی مسلمان معاشروں کی پہچان ہوا کرتی تھیں۔
ایک دوسرا طبقہ ہے، جو کہ چند احکامات کے نمائشی نفاذ سے نفاذِ اسلام کی تقدیر کو وابستہ سمجھتا ہے، جیسا کہ نوے (90ء) کی دہائی کی طرح آج کل پھر افغانستان سے خبریں آنا شروع ہوگئی ہیں کہ وہ بعض جرائم پر سخت سزاؤں کے قوانین لارہے ہیں۔ ان خبروں کی بنیاد پر ایک طبقے کے ہاں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بس اب افغانستان میں اسلام آیا ہی چاہتا ہے۔
یا جیسے ہمارے ہاں ایک سخت گیر مارشل لا کے دور میں دفتروں میں باجماعت نماز کی پابندی، زکوٰۃ کے نا مکمل قانون کے نفاذ اور شریعت بل جیسے اقدامات سے ہمارے ہاں کے بعض طبقوں کو پاکستان میں مکمل اسلامی شریعت کے نفاذ کی امید بندھ چلی تھی۔ پھر ان طبقوں نے پورے زور سے اس بدترین آمریت کے دور کا دفاع اسلامی نظام کے نفاذ کی کاوشوں کے نام پر ہی کیا تھا۔ اپنے سماجی و معاشرتی نتائج کے اعتبار سے آج یہ دور تاریخ میں سیاہ ترین دور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ایسے میں بہت ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ اسلام کس سماجی اور سیاسی نظام کی بات کرتا ہے اور اس کے نظام کی روح کیا ہے؟ وہ عارضی اور وقتی بند باندھنے کے بجائے کس مستقل حکمتِ عملی کی بات کرتا ہے؟ اسلام کی حکومت اور اقتدار کا نام استعمال کرکے اپنے ذاتی اور طبقاتی اقتدار کو دوام بخشنے والے چالاک حکمرانوں اور ان کی حمایت کرنے والے بہروپیے مذہبی طبقوں کے بارے میں وہ کیا شعور دیتا ہے؟ اس کو سمجھے بغیر اقتدار اور طاقت کے ایوانوں میں مذہب کے نام کا استعمال اور اس کے نظریاتی استحصال کو نہیں روکا جاسکتا۔
اسلام کا نظامِ عدل محض کوئی خواب نہیں، بلکہ وہ ایک حقیقت ہے جس کی پشت پر کامیابی کی گیارہ سوسالہ تاریخ ہے۔ جس نے ہر عہد کے فکری، معاشی اور سماجی چیلنجز کا جواب دیا ہے۔ کسی دور کے بے شعور طبقے کے اسلام کے نام پر غیرمتوازن رویوں کی وجہ سے اسلام کے نظام کی روشن تاریخ کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اپنی روشن فکر اور عمل کی قوت سے آج بھی سماج کے دھارے کو بدل سکتا ہے! اسلام کا سیاسی شعور اور مستحکم اصولوں پر مبنی سیاسی نظام، راقتصادی عدل و انصاف کا بلند فکر اور عملی طور پر بہتر معاشی نظام مضبوط بنیادیں رکھتا ہے۔ بس اس کے لیے اس کی متوازن فکر، روحِ عصر اور موجودہ عہد کے عملی تقاضوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ (مدیر)
ٹیگز
مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔
متعلقہ مضامین
اسلام کی تمام تعلیمات کا بنیادی مقصد
14؍ جنوری 2022ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’معزز دوستو! دی…
مؤمنانہ فراست کا تقاضا
عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ: ’’لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ‘‘۔ (صحیح البخاری: 6133) (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ …
اللہ تعالیٰ کو تسلیم کیے بغیر کوئی کامل نظام قائم نہیں ہوسکتا
یکم؍ اکتوبر 2021ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’معزز …
اَحبار و رُہبان کی دین فروشی اور فاسد کردار
12؍ اگست 2022ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعتہ المبارک ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا: ’’معزز…