(امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اس باب کے شروع میں انسان کی ترقی اور کامیابی کے حوالے سے دو طریقہ ہائے کار کی نشان دہی کی تھی: ایک یہ کہ انسان اپنی حیوانیت کو سِرے سے ختم کردے اور صرف اپنی ’’مَلَکیت‘‘ کو ترقی دے۔ دوسرا طریقۂ کار یہ کہ حیوانی تقاضوں کی اصلاح کرتے ہوئے مَلکی تقاضوں کی تکمیل کی جائے۔ اس دوسرے طریقۂ کار کے بارے میں شاہ صاحبؒ نے بتلایا کہ یہ انبیا علیہم السلام کا طریقۂ ترقی ہے اور انسان کی یہی حقیقی ترقی اور کامیابی ہے۔
اس کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں :)
’’اس کی تفصیل یہ ہے کہ اپنی حیوانیت کو سِرے سے ختم کرنے کا پہلا طریقۂ کار مجذوب لوگ اختیار کرتے ہیں۔ اور اُن کی تعداد بہت تھوڑی ہوتی ہے۔
[کامیابی کے پہلے طریقے کے نقصانات]
(نیز اس طریقۂ کار میں درجِ ذیل خرابیاں پائی جاتی ہیں:)
1۔ یہ طریقۂ کار بڑی مشقت والی ریاضات برداشت کرنے، دنیا کی ہر چیز سے بہت زیادہ بے تعلق اور فارغ رہنے کا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔
2۔ اس طریقۂ کار کے اہم رہنما وہ لوگ ہوتے ہیں، جنھوں نے اپنی معاشی زندگی کو فضول اور مہمل بنا کر رکھ دیا۔ اُن کے لیے دنیا میں کوئی کشش اور چاہت نہیں ہوتی۔
3۔ یہ لوگ اُس وقت تک اس طریقۂ کار کو اختیار نہیں کرسکتے، جب تک کہ دوسرے طریقۂ کار کے مطابق کچھ نہ کچھ اپنے کھانے پینے اور معاش کا انتظام نہ کریں۔
4۔ پھر یہ لوگ کامیابی کے درجِ ذیل دو راستوں میں سے ایک راستے کو بالکل مہمل چھوڑ دیتے ہیں:
(الف) کامیابی کا ایک راستہ؛ دنیا میں ارتفاقات کی اصلاح کا ہے۔
(ب) دوسرا راستہ آخرت کے لیے اپنے نفس کی اصلاح کا ہے۔
5۔ پھر یہ بھی ہے کہ اگر مجذوبوں کے اس طریقۂ کار کو اکثر لوگ اختیار کرلیں تو دنیا کا سارا نظام خراب ہو کر رہ جائے گا۔
6۔ اگر تمام لوگوں کو اس طریقۂ کار کا پابند بنایا جائے تو ایسا کرنا انھیں ایک ناممکن بات کا پابند بنانا ہوگا۔ اس لیے کہ ارتفاقات انسانی جبلت کا بنیادی حصہ ہیں۔
[حقیقی کامیابی کے دوسرے طریقے کے فوائد و ثمرات]
انسانی ترقی کے دوسرے راستے کی درجِ ذیل خصوصیات اور فوائد ہیں:
1۔ اس طریقۂ کار کے رہنما اور ائمہ ’’مُفَہَّمون‘‘ (سمجھ دار لوگ) ہوتے ہیں۔ ان کی ملکیت اور بہیمیت میں باہمی مصالحت ہوتی ہے۔
2۔ یہ سمجھ دار لوگ بہ یک وقت دین اور دنیا دونوں کی حکمرانی اور ریاست قائم کرتے ہیں۔
3۔ انسانیت میں ان کی دینی دعوت بہت زیادہ مقبول ہوتی ہے۔
4۔ ان کے جاری کردہ طریقۂ کار کی ہی عام طور پر اتباع کی جاتی ہے۔
5۔ اس طریقۂ کار پر عمل کرنے سے ملکیت اور بہیمیت میں مصالحت کے حامل لوگوں کے کمالات منحصر ہوتے ہیں، جو دینی کاموں میں سبقت لے جانے والے اور دائیں ہاتھ میں نامۂ اَعمال لینے والے ہیں۔ ایسے لوگ اکثریت میں ہوتے ہیں۔
6۔ یہ طریقۂ کار ایسا ہے کہ ایک ذہین اور کند ذہن آدمی بھی اس پر عمل کرکے کامیاب ہوجاتا ہے۔ نیز معاشی سرگرمیوں میں مشغول اور فارغ رہنے والا فرد بھی اس طریقۂ کار سے مستفید ہوتا ہے۔ اس سے انھیں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا۔
7۔ یہ طریقۂ کار ایک بندے کو درجِ ذیل اُمور میں بہت کافی ہوتا ہے:
(الف) اس سے استقامتِ نفس پیدا ہوتی ہے۔
(ب) اس کے ذریعے سے وہ اپنے نفس کی کجی اور کوتاہی دور کرلیتا ہے۔
(ج) وہ آخرت میں متوقع مصیبتوں اور تکلیفوں سے بچ جاتا ہے۔
اس لیے کہ ہر انسانی نفس کے کچھ ایسے مَلکی افعال ہوتے ہیں کہ اگر انھیں کیا جائے تو انسان کو لذت کی نعمت حاصل ہوجاتی ہے۔ اگر اُن افعال کو وہ نہ کرسکے تو اُس کے نفس کو تکلیف اور اذیت حاصل ہوتی ہے۔‘‘
[دوسرے طریقۂ کار پر ایک سوال کا جواب]
(سوال: دوسرا طریقۂ کار اختیار کرنے سے معاشی اُمور میں آدمی ایسا اُلجھ جاتا ہے کہ اُسے ماورائے مادہ عالَم کی طرف پوری توجہ نہیں رہتی۔ وہ معاشی ارتفاقات میں مشغول ہو کر ذاتِ باری تعالیٰ میں پورا استغراق حاصل نہیں کرسکتا۔ اور اُسے وہاں کے علوم حاصل نہیں ہوپاتے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں:)
’’باقی رہا ماورائے مادہ عالَم کے احکامات اور علوم کہ جنھیں انسان اپنی جبلت کے سبب نہیں جان پاتا، تو وہ عنقریب قبر اور حشر کے مختلف مراحل میں اُس کے سامنے کھل کر آجائے گا، اگرچہ کچھ زمانے کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ستُبدی لک الأیّامُ ما کُنتَ جاہلاً
و یأتیک بالأخبار من لم تُزوّدٖ
(عنقریب تجھ پر (آئندہ آنے والے) دنوں کی اصل حقیقت ظاہر ہوجائے گی کہ جن سے تو جاہل ہے۔ اور جن باتوں سے تُو باخبر نہیں ہوا، وہ باتیں تیرے سامنے آکر رہیں گی۔)
خلاصہ یہ ہے کہ خیر کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا اور تمام علوم پر حاوی ہونا اکثر لوگوں کے لیے قطعی طور پر محال ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ (آنے والے عالَم کے بارے میں) ’’جہلِ بسیط‘‘ یعنی مطلق جہالت نقصان دہ نہیں ہوتی۔ و اللہ اعلم‘‘
(باب توزُّع النّاس فی کیفیۃ تحصیل ہٰذہٖ السّعادۃ)
ٹیگز
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...