انسانی کامیابی اور ترقی کے چار بنیادی اَخلاق  (3)

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
اکتوبر 19, 2020 - افکار شاہ ولی اللہؒ
انسانی کامیابی اور ترقی کے چار بنیادی اَخلاق  (3)

انسانی کامیابی اور ترقی کے چار بنیادی اَخلاق  (3)

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :

چوتھا بنیادی خُلق؛ عدالت

’’چوتھا خُلق عدالت ہے۔

(عدالت کی تعریف)

وہ انسانی نفس میں ایسی صلاحیت اور مَلکہ کا ہونا ہے کہ جس کی وجہ سے کسی ملک یا کسی محلے کا نظام قائم کرنے سے متعلق اعمال و افعال سہولت کے ساتھ سرانجام پاتے ہوں۔ اس خُلق کی وجہ سے انسان کی روح فطری طور پر ایسے عادلانہ افعال سرانجام دے۔

(خُلقِ عدالت سے آخرت میں کامیابی کا راز)

اس خُلقِ عدالت کے سبب سے انسان کے لیے آخرت میں حقیقی کامیابی حاصل ہونے میں ایک راز ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کے وقت اس کے نظام کو درست رکھنے کا ارادہ فرمایا۔ یہ ارادۂ الٰہی فرشتوں اور جسم سے جدا ہوجانے والی روحوں میں منقش ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اُن فرشتوں اور روحوں کی مرضیات میں ایک انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔ وہ عدل کے نظام کی مناسبت سے کام کرنے لگتی ہیں۔ جسم سے جدا ہوجانے والی روح کا یہ طبعی تقاضا بن جاتا ہے۔

چناںچہ جب کوئی روح اپنے جسم سے جدا ہوجاتی ہے اور دنیا میں رہتے ہوئے اُس میں عدل و انصاف کا ایسا خُلق موجود ہوتا ہے تو ملائِ اعلیٰ میں پہنچ کر بہت زیادہ خوش ہوتی ہے۔ اس طرح اُسے عدل و انصاف پر مبنی اعلیٰ قسم کی لذت حاصل کرنے کا راستہ مل جاتا ہے، جو ظلم اور ناانصافی پر مبنی پست قسم کی لذتوں سے بالکل جدا ہوتی ہے۔

اگر کوئی روح جسم سے جدا ہوئی اور اُس میں عدالت کے اس خُلق کی ضد ظلم کی بداَخلاقی موجود ہوتی ہے تو وہاں پہنچ کر اس کا حال بہت بُرا ہوتا ہے۔ اسے وہاں وحشت ہوتی ہے اور وہ بڑی تکلیف میں مبتلا ہوتی ہے۔

(نبی اکرمؐ کی بعثت کے مقاصد)

اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا میں نبی اکرم ﷺ کو اس لیے بھیجا ہے کہ آپؐ:

(الف)  لإقامۃ الدّین:دین کا نظام قائم کریں۔

(ب)         لِیُخرج النّاسَ مِن الظّلمات إلٰی النُّور:انسانوں کو ظلمتوں سے نکال کر نور اور روشنی کی طرف لے جائیں۔

(ج)        یقومُ النّاس بالعدل: انسانوں میں عدل و انصاف قائم کریں۔

اب جو آدمی اس نورِ عدالت کو دنیا میں پھیلانے کی جدوجہد کرتا ہے اور لوگوں کو اس کام کے لیے تیار کرتا ہے تو ایسا انسان اللہ کی رحمت میں داخل ہوجاتا ہے۔ اور جو آدمی عدل و انصاف کے اس بہترین نظام کو رد کرنے اور اس کو مٹانے کے لیے کام کرے، وہ ملعون اور سزا یافتہ قرار پائے گا۔

(عادل انسان اور فرشتوں کے درمیان باہمی اشتراکِ فکر و عمل)

جب کسی انسان میں خُلقِ عدالت اچھی طرح پختہ ہوجاتا ہے تو اُس کے درمیان اور عرشِ الٰہی کو اُٹھانے والے فرشتوں اور حضرتِ بارگاہِ الٰہیہ کے وہ مقرب فرشتے __ جو دنیا میں جود و سخاوت اور برکاتِ الٰہیہ کے نازل کرنے کا واسطہ بنتے ہیں __ کے درمیان اشتراکِ فکر و عمل پیدا ہوجاتا ہے۔

اس اشتراک کے نتیجے میں عدل و انصاف قائم کرنے والے آدمی اور اُن فرشتوں کے درمیان ایک دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس طرح انسان میں یہ استعداد پیدا ہوجاتی ہے کہ اُن فرشتوں کے نورانی رنگ اُس پر نازل ہوں اور وہ اُن کے رنگ میں رنگا جائے۔ کچھ اس طرح پر کہ فرشتوں کے الہام کے نتیجے میں اُس میں اس خُلقِ عدالت کو پورا کرنے کی پوری قدرت اور طاقت حاصل ہوجاتی ہے۔ وہ انسانی نظام درست کرنے کے لیے فرشتوں کے حسب ِمنشا کام کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔

اَخلاقِ اربعہ کا نتیجہ؛ فقیہ اور باشعور ہونا

(الف)     اگر تم تحقیقی طور پر ان چاروں اَخلاق کی حقیقت سے واقف ہوگئے ۔

(ب)       اگر تم اس کے نتیجے میں علمی اور عملی کمال پیدا ہونے کی پوری کیفیت اور فرشتوںکی لڑی میں پروئے جانے کے عمل کو سمجھ گئے۔

(ج)        اگر تم اس کے نتیجے میں ہر زمانے میں شرائعِ الٰہیہ کے وجود میں آنے کی کیفیت کو پوری ذہانت کے ساتھ واقف ہوگئے۔

تو تمھیں بہت بڑی خیرِ کثیر اور بھلائی حاصل ہوگئی۔ اور تم دین کی تعلیمات میں ایک ایسے فقیہ اور باشعور فرد بن گئے کہ جن کے بارے میں اللہ نے خیر اور بھلائی کا ارادہ کیا ہوا ہے۔

اَخلاقِ اربعہ کا مجموعہ ؛ فطرتِ انسانی

ان چاروں اَخلاق سے مرکب ہونے والی حالت کو ’’فطرت‘‘ کہا جاتا ہے۔

اس فطرت کو حاصل کرنے کے کچھ اسباب ہیں:

(الف)     بعض علمی اسباب ہیں۔

(ب)       بعض عملی اسباب ہیں۔

اس فطرت سے انسانوں کو روکنے والے کچھ حجابات اور رُکاوٹیں ہیں۔

ان حجابات کو توڑنے کے کچھ طریقے ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ ہم تمھیں ان تمام اُمور پر متنبہ کریں۔

اس لیے ضروری ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی توفیق سے اس حوالے سے جو باتیں ہم بیان کریں، تم انھیں توجہ کے ساتھ سنو اور عمل پیرا ہو۔‘‘

(باب الاصول الّتی یرجع إلیہا تحصیل الطّریقۃ الثّانیۃ)

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...