امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’جاننا چاہیے کہ ترقی اور کامیابی کے اس طریقے کے حصول کے اگرچہ بہت سے راستے ہیں، لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے سمجھایا ہے کہ ان تمام راستوں اور طریقوں کا مرکز و منبع انسانیت کے چار بنیادی اَخلاق ہیں۔ ان چار اَخلاق پر عمل کی صورت میں انسان کا نفسِ ناطقہ (روحِ ملکوتی) اس کی بہیمیت پر اثرانداز ہوتا ہے اور اسے ملکوتی تقاضوں سے مناسبت پیدا کرنے کی طرف کھینچتا ہے۔ ان چار اَخلاق پر عمل کے نتیجے میں انسان میں ایسی حالت پیدا ہوتی ہے، جو ملائِ اعلیٰ کی صفات سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ اس طرح اُس میں اعلیٰ مقام تک پہنچنے کی استعداد پیدا ہوجاتی ہے اور اُسے ملائِ اعلیٰ کے فرشتوں کی لڑی میں پرونے کا باعث بنتی ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے یہ بات بھی سمجھائی ہے کہ:
الف: انبیا علیہم السلام کی بعثت کا مقصد لوگوں کو انھی چار اَخلاق کی دعوت دینا ہے۔
ب: انسانیت کو ان اَخلاق کے حصول کے لیے اُبھارنا ہے۔
ج: تمام شریعتیں انھی چار اَخلاق کی تفصیل ہیں۔
د: شریعتوں کے تمام احکامات کا مرکز اور منبع یہی چار اَخلاق ہیں۔
پہلا بنیادی خُلق؛ طہارت
ان اَخلاق میں سے ایک طہارت ہے۔ اس کی حقیقت اس طرح سمجھئے کہ جب انسان کی فطرت صحیح سلامت ہو اور اُس کا طبعی مزاج صحت مند ہو، اس کا دل غور و فکر اور تدبر سے روکنے والے پست حالات مثلاً بھوک، پیاس اور شہوت وغیرہ سے بالکل فارغ ہو۔ ایسے انسان پر درجِ ذیل دو حالتیں طاری ہوتی ہیں:
الف: ایسے انسان کے جسم پر اگر کوئی نجاست یا گندگی لگ جائے، یا پیشاب یا پاخانے کا تقاضا ہو، یا جنسی شہوت کا غلبہ ہوجائے تو وہ اپنے نفس اور روح میں انقباض اور گھٹن محسوس کرتا ہے۔ اُسے تنگی اور غم لاحق ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی روح اور قلب پر ایک طرح کا بوجھ اور حجاب محسوس کرتا ہے۔
ب: ایسا فرد جب پیشاب پاخانے سے فارغ ہوجاتا ہے، اپنے جسم کو دھوتا ہے اور غسل کرتا ہے، اچھے کپڑے پہنتا اور خوشبو لگاتا ہے تو اس کی دلی تنگی اور انقباض دور ہوجاتا ہے۔ اس کی طبیعت میں خوشی اور سرور پیدا ہوجاتا ہے اور اُس کا سینہ کھل جاتا ہے۔ ایسا وہ محض لوگوں کو دکھانے، یا عام لوگوں کی نقل کی غرض سے نہیں کرتا، بلکہ خالص اپنے نفسِ ناطقہ اور دل کے تقاضے سے کرتا ہے۔
پہلی حالت کو ’’حَدَث‘‘ کہتے ہیں اور دوسری حالت کو ’’طہارت‘‘ کہا جاتا ہے۔
دو طرح کے انسان
لوگوں میں سے جو انسان ذہین ہوں اور ان میں نوعِ انسانیت کے (عقلی) اَحکام پورے طور پر ظاہر ہوں اور انسانی صورتِ نوعیہ کے مادی اور طبعی احکام بھی اپنی پوری معنویت کے ساتھ پائے جاتے ہوں تو ایسے انسان ان دونوں حالتوں کو اچھی طرح ایک دوسرے سے ممتاز طور پر پہچان لیتے ہیں اور ہر ایک حالت کی دوسرے سے الگ نوعیت کو سمجھ جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ طبعی طور پر اُن میں سے ایک (یعنی طہارت) سے محبت رکھتے ہے اور دوسری (حدث) سے بغض اور نفرت رکھتے ہیں۔
لوگوں میں سے جو آدمی غبی اور کمزور ذہن ہوتا ہے، وہ بھی اگر اپنی بہیمیت کو کچھ کمزور کرلے اور طہارت حاصل کرنے کی خوب جدوجہد کرے اور طہارت اور حدث کی دونوں حالتوں کی پہچان پیدا کرنے کے لیے سرگرم ہوجائے تو ضرور اُسے بھی ان کے درمیان واضح طور پر فرق محسوس ہوجاتا ہے۔
طہارت کے فوائد اور ثمرات
طہارت کا خُلق انسانی روح میں ایسی صفات پیدا کرتا ہے کہ جس سے اُس میں ملائِ اعلیٰ کے حالات سے بہت زیادہ مشابہت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ ملائِ اعلیٰ کے حالات بہیمیت کی گندگیوں سے بہت دور ہیں۔ ایسی صورت میں انسانی روح ملائِ اعلیٰ کے نور سے خوشی اور لذت محسوس کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طہارت انسانی نفس میں قوتِ عملیہ کے اعتبار سے بڑا کمال پیدا کرتی ہے۔
حدث کے بد اَثرات
حدث کی حالت جب کسی انسان میں پیدا ہوجائے اور اسے ہر طرف سے گھیر لے تو وہ انسان میں شیطانی وسوسوں کو قبول کرنے کی بُری استعداد پیدا کردیتی ہے۔ یہاں تک کہ حدث کی حالت زیادہ دیر تک رہے تو انسان کی حسِ مشترک (باطنی قوت) شیطانوں کو دیکھنے لگ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اُسے وحشت ناک خواب نظر آنے لگتے ہیں۔ اس کے نفس ناطقہ (روح) پر ظلمت اور اندھیروں کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ بدبخت اور ملعون قسم کے جانوروں کی شکلیں اور صورتیں نظر آنے لگتی ہیں۔
طہارت کے بہترین اثرات
جب کسی انسان پر طہارت کی حالت پختہ طور پر پیدا ہوجاتی ہے اور وہ اُسے گھیر لیتی ہے، ہر وقت اُسے طہارت یاد رہتی ہے اور دلی میلان، پاکیزگی اور طہارت کی طرف ہوجاتا ہے تو ایسے انسان میں فرشتوں کو دیکھنے اور اُن کے الہامات کو قبول کرنے کی استعداد پیدا ہوجاتی ہے۔ اُسے اچھے اور عمدہ خواب نظر آنے لگتے ہیں۔ اُس پر انوارات ظاہر ہوتے ہیں۔ پاکیزہ اور عمدہ چیزوں کی شکلیں اور صورتیں سامنے آتی ہیں اور اس پر انتہائی عظمت والی اور مبارک اشیا اور چیزوں کا ظہور ہوتا ہے۔
(باب الاصول التی یرجع الیہا تحصیل الطریقۃ الثّانیۃ)
ٹیگز
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...