علم کے منافقین!

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
اکتوبر 22, 2020 - خطباتِ جمعتہ المبارک
علم کے منافقین!

رپورٹ: سیّد نفیس مبارک ہمدانی، لاہور

11؍ ستمبر 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں جمعتہ المبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: 
’’حضرت عمرفاروقؓ فرماتے ہیں کہ: ’’مجھے اس اُمت پر اُس انسان سے ڈر ہے، جو صاحب ِعلم ہو اور منافق (المنافق العلیم) ہو۔‘‘ (الاحادیث المختارہ: 236) جو علم رکھتا ہے اور منافق ہے۔ ایک جاہل منافق ہو تو ہوسکتا ہے جہالت کی وجہ سے اس کی زبان اور عمل میں فرق ہو، لیکن جس کے پاس علم بھی ہو، اس کے باوجود منافقت کرے۔ وہ ’’المنافق العلیم‘‘ ہے۔ ایسا مسلمان جو کلمہ پڑھے، اللہ اور اللہ کے رسول پر ایمان لائے، لیکن ایمان کے مطابق عمل نہ کرے، اس کے بارے میں اللہ پاک نے تین باتیں فرمائی ہیں کہ وہ یا منافق ہے، یا فاسق ہے، یا فاجر ہے۔ عقیدے کا منافق وہ ہے، جو ظاہری طور پر ایمان لائے، لیکن اس کے دل میں کفر کی محبت ہو۔ فاسق وہ ہے، جس نے کلمہ تو زبان سے پڑھا اور پہلی مرتبہ دل سے تصدیق بھی کی، لیکن اس ایمان لانے کے نتیجے میں اللہ نے جو اعمال کرنے کا حکم دیا ہے، وہ اعمال نہ کرے۔ اس کے عمل اور ایمان میں مطابقت نہ ہو۔ فاجر وہ ہے کہ جو ایمان بھی لائے، بہ ظاہر نیک عمل بھی کرے، لیکن عمل جس روح کے مطابق ہونا چاہیے، اس کے مطابق نہ کرے۔ اس عمل سے جو نتیجہ مطلوب و مقصود ہے، وہ پیدا نہیں کرتا۔ حیلہ کرکے جان بچانا چاہتا ہے۔ جو تربیت حاصل ہونی چاہیے تھی، وہ اُس کے اندر نہیں آئی۔ 
ایسے ہی منافق اہل علم کی بھی تین قسمیں ہیں: ایک وہ جو علم نہ رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو عالم کہے۔ منافقت کی شکل یہ ہے کہ عالم تو نہیں ہے، حقیقت میں اُسے مہارت حاصل نہیں ہے، کام کرنا آتا نہیں، محض رسمی طور پر کسی یونیورسٹی سے ڈگری لیے ہوئے ہو۔ دوسرا وہ ہے جو اپنے علم پر مہارت رکھتا ہے، بات درست سمجھتا ہے، لیکن اُس کے مطابق عمل نہیں کرتا۔ وہ اپنی مہارت کے علیٰ الرغم دولت کمانے کے لیے مفاد پرستی کے لیے عمل کرتا ہے۔ ذاتی، گروہی اور طبقاتی مفاد کو سامنے رکھتا ہے۔ تیسرا وہ ہے جو ظاہری طور پر اپنے علم پر عمل کرتا ہے، لیکن ساتھ قانون شکنی بھی کرتا ہے۔ مثلاً ایک ڈاکٹر بہ ظاہر دوائی صحیح لکھ کر دیتا ہے، لیکن دوائی میں ہو کچھ نہ، صرف لیبل ہو اور اس کے اندر وہ سالٹ ہی نہ ہو، جس سے مریض صحت یاب ہو۔ وہ دوا جعلی ہے۔ مریض پر اثر نہیں کرتی۔ 
اسی طرح ایک شخص قرآن و سنت کاعالم ہو، لیکن سرمایہ پرستی کے نظام کا ایجنٹ بن جائے، جو حکمران طبقے چاہیں، وہ کرے۔ حکمران کہیں کہ یہ لڑائی جہاد ہے تو سارے مذہبی رہنما جہاد کا اعلان کردیں۔ حکمران کہیں کہ یہ فساد ہے تو وہ کہیں فساد ہے۔ حکومت فرقہ واریت پیدا کرنے کا کہے تو فرقہ واریت پھیلا دیں، اور فرقہ واریت ختم کرنے کا کہا جائے تو سب ملّی یک جہتی کونسل بنا کر سامنے آجائیں۔ اس طرح اگر دین کے عالم ظلم کے نظام کی ایجنٹی کریں، اُس کے سامنے موم کی ناک بن جائیں، اُن کے لیے فتوے دیں، اُن کے لیے مفادات اور مراعات کا کام کریں تو یہ بھی ’’المنافق العلیم‘‘ (صاحب ِعلم منافق) ہیں۔‘‘ 
 

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...