7؍ اگست 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں جمعتہ المبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’خالقِ کائنات نے انسانی ترقی کے جو اصول متعین کیے ہیں، وہ اُسی عالِم سے معلوم ہوسکتے ہیں کہ جو اللہ کی طرف سے دنیا میں علم لایا ہو۔ وہ سوائے نبی کے اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ انبیا علیہم السلام دنیا بھر کے تمام علوم کی مرکز اور منبع ذات یعنی اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کرتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اس کے طے کردہ قوانین اور ضابطوں کو دنیا میں منتقل کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ انبیاؑ سے اُن کے صحابہ اور تابعین علم حاصل کرتے ہیں اور پھر اُن کے تسلسل سے جو بھی اُس علم کے حصول کی جدوجہد اور کوشش کرے، وہ بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب اس علم کو حاصل کرسکتا ہے۔ اس میں کوئی نسلی فرق اور امتیاز نہیں ہے کہ فلاں خاص نسل کا آدمی ہی یہ علم حاصل کرسکتا ہے، اَور کوئی نہیں۔
ابھی پچھلے دنوں مدینہ منورہ میں مسجد ِنبویؐ میں پچاس سال تک درسِ حدیث دینے والے بہت بڑے عالِم ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمن الاعظمی کا انتقال ہوا۔ وہ ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے اُن کا نام بانکے رام رکھا۔ وہ ہندوؤں کی ایسی نسل سے تھے کہ جن کو خود ہندوؤں میں بھی نچلا درجہ دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں توفیق دی، وہ مسلمان ہوئے، ماں باپ اور گھر والوں نے ان پر تشدد کیا تو وہاں سے بھاگ کر حرمین شریفین چلے گئے۔ وہیں علم حاصل کیا اور وہیں دنیا بھر کے علما سے استفادہ کیا۔ انھوں نے ایک یونیک اور منفرد کتاب ’’الجامع الکامل فی الحدیث الصّحیح الشّامل‘‘ لکھی، جو دنیا بھر میں پہلی مرتبہ نبی اکرمؐ کی صحیح احادیث کا ایک کامل مجموعہ بن کر سامنے آئی۔ امام بخاریؒ نے تو خاص شرائط کے تحت أصحّ الصّحیح احادیث جمع کی ہیں، لیکن انھوں نے دنیا کی کوئی ڈیڑھ دو سو حدیث کی بنیادی کتابوں میں جو صحیح اور حسن احادیث بکھری ہوئی تھیں، ان کا ایک مجموعہ 25 جلدوں میں مرتب کیا ہے۔ کہاں وہ ایک ہندو کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ہندوستان کی کمزور ترین نسلوں سے ان کا تعلق تھا۔ جن کو خود اُن کے اپنے ہم مذہب کوئی اہمیت اور عزت دینے کے لیے تیار نہیں۔ اور کہاں انھوں نے علومِ نبوت حاصل کیے اور احادیث کی وہ خدمت سرانجام دی، جس کی عرصۂ دراز سے اُمت ِمسلمہ کو ضرورت تھی۔
اسلام کوئی نسلی مذہب نہیں ہے، اور نہ کسی خاص زبان اور قوم کا مذہب ہے۔ یہ کل انسانیت کا آفاقی مذہب ہے۔ جو انسان بھی اس کا علم حاصل کرلے، وہ اس کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے سکتا ہے۔ علم کے سامنے ہی گردنیں جھکتی ہیں۔ بانکے رام جب تک غیرمسلم ہے تو کوئی اُس کو قریب لگانے کے لیے تیار نہیں ہے اور جب وہ محدث بن کر مسجد نبویؐ میں روضۂ رسولؐ کے قریب درسِ حدیث دے رہے ہیں، تو دنیا بھر کے بڑے بڑے محدثین ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے ہیں۔ یہ ہے علم، اس پر کوئی پہرے نہیں ہیں، کوئی قید نہیں ہے۔ اس لیے صحیح گفتگو وہی کرے گا، جو اپنے شعبے کا علم رکھتا ہے۔ دین کی رہنمائی وہی دے سکتا ہے، جسے علومِ نبوت پر عبور حاصل ہو۔‘‘
ٹیگز
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...