حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے ارادے اور عزم کی تکمیل

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
اگست 05, 2020 - خطباتِ جمعتہ المبارک
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے ارادے اور عزم کی تکمیل

رپورٹ؛ سید نفیس مبارک ہمدانی، لاہور

۷؍ ذوالحجہ ۱۴۴۰ھ / 9؍ اگست 2019ء کو حضرت مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں جمعتہ المبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: 

’’عرفہ اور اُس سے اگلے دن کے درمیان مزدلفہ میں حضرت ابراہیمؑ کو پھر خواب آتا ہے، جس سے اُن کا عزم پختہ ہوگیاکہ بیٹے کو قربان کرنا ہے۔ اس لیے اس دن کو ’’یوم النحر‘‘ (قربانی کا دن) کہا گیا۔ چناںچہ یوم النحر کو جب حضرت ابراہیمؑ بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے مکہ سے چلتے ہیں اور جیسے ہی مکہ سے نکل کر منیٰ کی حدود میں داخل ہوا چاہتے ہیں تو ایک بہت بڑا شیطان حضرت ابراہیمؑ کو آکر اس کام سے روکتا اور بڑے دلائل دیتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کو وسوسہ ڈالتا ہے کہ اتنے دنوں کے بعد بیٹا پیدا ہوا ہے، بیٹے کو مار رہے ہو؟ انسانیت کا قتل کر رہے ہو؟ کتنا بڑا جرم کر رہے ہو! حضرت ابراہیمؑ نے سات کنکریاں اُٹھائیں اور اُس کے منہ پر دے ماریں کہ ذلیل و رُسوا ہو کر یہاں سے بھاگو۔ تمھاری بات نہیں مانی جائے گی۔ جھگڑے کا بیج تو تم سے شروع ہوا ہے۔ 
اب جیسے ہی حضرت ابراہیم اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو لے کر آگے چلے، تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تو دوبارہ وہ شیطان سامنے آن کھڑا ہوا اور وسوسہ ڈالنے کی کوشش کی۔ دوسری دفعہ آتا ہے تو بہت چھوٹا سا حجم تھا، جسے آج جمرۃ الوسطیٰ کہتے ہیں، درمیانہ شیطان۔ پھر حضرت ابراہیمؑ نے سات کنکریاں لگائیں اور اُس کے وسوسے کو بھگایا۔ تیسرے مقام پر حضرت ابراہیمؑ پہنچتے ہیں تو وہاں پھر شیطان آگیا۔ پھر حضرت ابراہیمؑ نے اُسے سات کنکریاں ماریں۔ اب اس کو جرأت اور ہمت نہ ہوئی۔ نہ بیٹے کے دماغ کو پھیر سکا، نہ ہی حضرت ابراہیم کا خیال بدل سکا۔ حضرت ابراہیمؑ نے بیٹے کو جب زمین پر لٹایا اور بیٹے نے بھی اپنی مکمل سپردگی کا اعلان کیا تو فوراً چھری پھیر دی تو اللہ پاک نے بیٹے کی جگہ ایک جانور وہاں بھیج دیا، جو ذبح ہوگیا۔ اللہ پاک نے کہا: ’’اے ابراہیم! تو نے خواب سچا کر دکھایا۔‘‘ (القرآن 103:37) تیرے ارادے اور عزم کا امتحان مکمل ہوگیا۔ اب تیری اتباع کرنے والے اور تیرے نقش قدم پر چلنے والے تمام لوگ اگر یہ عمل دہرائیں گے تو اُن کے لیے بیٹے کی قربانی کے بجائے جانور کی قربانی ہے۔ کیوںکہ اصل مقصد انسان کی داخلی بہیمیت اور حیوانیت ذبح کرنا تھا، مکمل انسان کی قربانی مقصود نہیں تھی۔ 
ایک قربانی کرنے والا جب جانور قربان کرتا ہے تو دل میں جو جانور بنا ہوا ہے، اصل مقصد اس پر چھری چلانا ہوتا ہے۔ دل میں جو حیوانیت اور بہیمیت مسلط ہے، اس کو ذبح کرنا ہے۔ یوم النحر قربانی کا پہلا دن ہے۔ اس کے لیے تین دن مقرر کردیے گئے۔ کیوںکہ دنیا بھر کے انسانوں نے حج کے موقع پر بھی اور اپنے اپنے علاقے میں بھی حضرت ابراہیمؑ کی یہ سنت ادا کرنی ہے۔ تو وقت زیادہ ہونا چاہیے۔ اس لیے حضرت ابراہیمؑ نے تینوں دن قربانی کرکے وہ طریقۂ کار واضح کردیا کہ رہتی دنیا تک اُمتِ مسلمہ اور انسانیت کے لیے ترقی کا کام کرنے والوں کے لیے سنت بن گئی۔ حضوؐر سے صحابہؓ نے پوچھا: یہ قربانی کیا ہے؟ تو حضوؐر نے فرمایا: ’’یہ تمھارے باپ ابراہیم کی سنت ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3127) اپنے آباؤ اجداد کا دن منانا چاہتے ہو تو یہ دن مناؤ۔ جس میں اپنے نفس کے اوپر چھری پھیرو۔ اپنی حیوانیت کو ذبح کرو، اپنی انسانیت کو اُبھارو اور اپنی انسانیت بحال کرو۔‘‘

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...