حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔ آپؓ صائب الرائے اور عظیم المرتبت شخصیت کے حامل تھے۔ قومی و اجتماعی معاملات میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ عرب قبائل کے کئی بڑے سردار آپؓ سے دوستی اور تعلقات رکھتے تھے۔ اسی سے معلوم ہو اکہ وہ عرب اور قرب و جوار کے احوال سے بڑی حد تک آگاہ رہتے تھے۔ غزوۂ بدر میں حضرت عباسؓ قریش کے ساتھ آئے اور قیدہوئے، جس کے بدلے آپؓ نے اپنا اور اپنے بھتیجے عقیل کا فدیہ دیا اور سب مکہ جاکر مسلمان ہوگئے اور ہجرت کرکے مدینہ آگئے۔ نبی اکرمؐ نے بیعتِ عقبہ میں اہلِ یثرب سے معاہدۂ نصرت کے حوالے سے بات چیت کی تو آخری نتیجہ خیز مرحلے پر حضرت عباسؓ شامل ہوئے اور انصارِ مدینہ سے بات کی کہ اس معاہدے کے مضمرات سے آگاہ رہیں کہ آپ لوگ محمدؐ کو مدینہ میں جگہ دے کر سارے عرب سے جنگ کا اعلان کررہے ہیں۔ اگر محمدؐ کا دفاع اپنی ہر چیز قربان کرکے کرسکتے ہیں تو لے جائیں، ورنہ آپؐ اپنے خاندان میں محفوظ ہیں۔ گویا اسلام کوئی معاہدہ دھوکے میں رکھ کر نہیں، بلکہ پورے شعور اور اِدراک کے ساتھ کرتا ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے حضرت حنظلہ بن ربیع کو غزوۂ طائف کے دن طائف والوں کے پاس بھیجا۔ چناں چہ حضرت حنظلہؓ نے ان سے بات کی۔ طائف والے انھیں پکڑ کر اپنے قلعہ میں لے جانے لگے تو حضوؐر نے فرمایا: کون ہے جو اِن آدمیوں سے حنظلہ کو چھڑا کر لائے؟ اسے ہمارے اس غزوے جیسا اجر ملے گا۔ اس پر صرف حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب کھڑے ہوئے۔ طائف والے حضرت حنظلہؓ کو لے کر قلعے میں داخل ہونے والے ہی تھے کہ حضرت عباسؓ ان تک پہنچ گئے۔ حضرت عباسؓ بڑے طاقت ور آدمی تھے۔ حضرت حنظلہؓ کو ان لوگوں سے چھین کر آپؓ نے انھیں گود میں اٹھا لیا۔ طائف والوں نے قلعے سے حضرت عباسؓ پر پتھروں کی بارش شروع کر دی، لیکن آخرکار حضرت عباس حضرت حنظلہؓ کو لے کر نبی اکرمؐ تک پہنچ گئے۔
غزوۂ تبوک سے واپسی پر ایک مجلس میں حضرت عباسؓ نے اجازت مانگی کہ میں آپؐ کی مدح میں کچھ اشعار کہنا چاہتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کہو تمھارے دانت سلامت رہیں ‘‘۔ حضرت عباسؓ نے اشعار کہے، جن میں سے چند کا ترجمہ درجِ ذیل ہے:
’’جب تک کہ اس نے خندف کے عالی مقام اور نگہبان خاندان کو محفوظ کردیا اور خاندان نطق و گویائی سے آراستہ ہے۔ آپؐ کی ولادت کے وقت زمین روشن ہوگئی اور آپؐ کی روشنی سے آفاق منور ہوگئے۔ ہم اس روشنی، نور اور نیکی کے راستوں پر چلتے ہیں‘‘۔
حضرت عباسؓ حضور ﷺ کے چچا ہونے کے باوجود ادبِ نبوی کا ہمیشہ لحاظ رکھتے تھے۔ کسی نے حضرت عباسؓ سے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا محمدؐ؟ تو کیا خوب جواب دیا! فرمایا: ’’عمر میری زیادہ ہے اور بڑے وہ ہیں‘‘۔ (تاریح ابن کثیر، تاریخ ابن عساکر، حیات الصحابہ)
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد قریش کے چند مشہورِ زمانہ سخی افراد میں سے تھے۔ آپ کی والدہ عاتکہ بنت عامر کنانیہ تھیں، جن کا تعلق معزز قبیلہ بنوفراس …
خلافتِ راشدہ کے نظام میں وسیع تر بامعنی مشاورت اور آج کی جمہوریت
وطنِ عزیز کی سیاست اپنے روز ِقیام ہی سے مختلف نعروں سے عبارت رہی ہے، جیساکہ ہم نے گزشتہ ماہ کے شذرات میں یہاں اسلامی نظام کے نمائشی نعروں کے برعکس چند سنجیدہ گزارشات …
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …
حضرت اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہا بنتِ رسول اللہ ﷺ
حضرت اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہا‘ حضور اقدس ﷺ کی تیسری صاحبزادی تھیں۔ آپؓ بعثتِ نبویؐ سے 6 سال پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔ حضوؐر کے اعلانِ نبوت کے بعد اسلام قبول کرن…