حقیقی انسانی ترقی اور کامیابی کا نبویؐ طریقۂ کار

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
جون 05, 2020 - افکار شاہ ولی اللہؒ
حقیقی انسانی ترقی اور کامیابی کا نبویؐ طریقۂ کار

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’جاننا چاہیے کہ یہ (گزشتہ باب میں بیان کردہ) حقیقی ترقی و سعادت اور کامیابی دو طرح سے حاصل کی جاتی ہے: 
[1۔ حیوانی تقاضوں کو سِرے سے ختم کرنے کا طریقہ]
ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے طبعی اور حیوانی تقاضوں کو سِرے سے ختم کردے۔ وہ اس طرح سے کہ: 
(الف) انسان (بھوک، پیاس اور جاگنے وغیرہ سے متعلق) ایسے طریقے اختیار کرے کہ جن سے اس کے طبعی اور حیوانی تقاضے بالکل ٹھنڈے ہو کر رہ جائیں۔ 
(ب) حیوانی خواہشات کی شدت اور تیزی ختم ہو کر رہ جائے۔ 
(ج) حیوانی طبیعت کی علمی صورتیں اور اُن کے عملی تقاضوں کی شعلہ افشانی سِرے سے بُجھ کر رہ جائے۔ 
(د) پھر وہ اپنی تمام تر توجہات دنیا میں موجود گرد و پیش کی تمام جہتوں (یعنی دائیں بائیں، اوپر نیچے، آگے پیچھے) سے اوپر اُٹھا کر ’’عالَمِ جبروت‘‘ (یعنی اللہ کی ذات و صفات) کی طرف کرلے۔ 
(ہ) اس کا نفسِ ناطقہ (روح) ایسے علوم کو قبول کرنے لگے، جو مکمل طور پر دُنیاوی زمان و مکان کے دائرے سے باہر ہیں۔ 
(و) وہ (مشاہدۂ حق تبارک و تعالیٰ اور مقامِ فنا و بقا وغیرہ کی) ایسی باطنی لذتوں میں منہمک رہے، جو ہر طرح سے عام لوگوں کی مانوس لذتوں (مثلاً کھانے، پینے اور نکاح وغیرہ) سے بالکل مختلف اور اس کے قطعی منافی ہوتی ہیں۔ 
(ز) ایسا فرد لوگوں سے بالکل کوئی تعلق اور میل جول نہ رکھے۔ اُسے عام انسانوں کی پسندیدہ اور مرغوب چیزوں میں بالکل رغبت نہ رہے۔ 
(ح) جن چیزوں سے لوگ عام طور پر خوف زدہ ہوتے ہیں، وہ اُن سے بالکل نہ ڈرے۔ 
(ط) وہ دیگر تمام لوگوں سے بالکل علاحدہ ہو کر کسی دور دراز علاقے کے بلند ترین پہاڑی مقام پر بالکل تنہائی اور گوشہ نشینی اختیار کرلے۔ 
کامیابی اور ترقی کا یہ وہ طریقہ ہے، جسے الٰہیات کو ماننے والے حکما (اشراقیّین؛ جوگی اور راہب) اور مجذوب صوفیا اختیار کرتے ہیں۔ لیکن ان میں سے بہت تھوڑے لوگ ہی اس طریقۂ کار سے اپنے اصل مقصد کو حاصل کر پاتے ہیں۔ باقی لوگ صرف ایسی خواہش ہی رکھتے ہیں۔ وہ پُر شوق نگاہوں سے اس طریقے کو اچھا سمجھتے ہیں اور بڑے تکلف سے مصنوعی طور پر ایسے مجذوبوں اور راہبوں کی صرف نقل اُتارتے ہیں۔ 
[2۔ حیوانی تقاضوں کی اصلاح کا کامیاب طریقہ]
دوسرا طریقہ (حقیقی سعادت اور کامیابی حاصل کرنے کا) یہ ہے کہ: 
(الف) انسان اپنے حیوانی اور بہیمی تقاضوں کی ایک طرح سے اصلاح کرے۔ 
(ب) وہ اپنے طبعی اور حیوانی اصل تقاضوں کو برقرار رکھتے ہوئے ان میں پیدا ہونے والی کجی کو درست کرے۔ 
(ج) وہ اپنی حیوانی روح کو اپنے نفسِ ناطقہ (روحِ ملکوتی) سے وابستہ امور (تجلیاتِ الٰہیہ، مشاہدۂ حق اور ملائِ اعلیٰ سے مناسبت رکھنے والی کیفیات) افعال، کیفیات اور ذکر اذکار وغیرہ میں مشغول رکھنے کی پوری جدوجہد اور کوشش کرے۔ 
(د) وہ ان مَلَکوتی افعال وغیرہ کی کم از کم اس طرح سے پوری نقل اُتارے: 
    (۱) جیسا کہ ایک گونگا آدمی اپنے جسمانی اعضا کے اشاروں کے ذریعے سے لوگوں 
        کی باتوں کی نقل اُتارتا ہے۔ 
    (۲) یا جیسا کہ ایک مصور‘ اپنی بنائی ہوئی تصویر میں انسان کی دلی کیفیات مثلاً ڈر اور 
        شرمندگی وغیرہ کا عکس دکھاتا ہے۔ وہ انسان کی اس حالت کی تمام کیفیات اور 
        احوال اس تصویر میں ایک مجموعی تاثر کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔ 
    (۳) یا جیسا کہ میت پر رونے والی خواتین مرنے والے کے لیے ایسے کلمات اور 
        جملے باربار دہراتی ہیں کہ جو بھی سنتا ہے، وہ غمگین ہوجاتا ہے اور اُس میں بھی 
        رونے اور غم کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ 
[کامیابی کا دوسرا طریقہ انبیا علیہم السلام کا ہے]
کائنات میں جاری اللہ تبارک و تعالیٰ کی تدبیر کی بنیاد اس بات پر ہے کہ: 
(الف) جو طریقہ انسانوں کی اصلاح و ترقی کا زیادہ آسان اور قریب تر ہو، اُسے اختیار کیا جاتا ہے۔ 
(ب) وہ طریقۂ کار ایسا ہونا چاہیے کہ جس میں تمام افرادِ انسانی کی مجموعی طور پر اصلاح پیشِ نظر ہو، نہ کہ چند خاص افراد اور انسانی معاشروں سے بالکل الگ تھلگ رہنے والے افراد کی اصلاح کا طریقہ اپنایا جائے۔ 
(ج) اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ دنیا میں موجود مخلوقات کے لیے جاری کیے گئے تخلیقی اور تکوینی نظام میں کوئی خلل ڈالے بغیر سب لوگوں کے لیے دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح و بہبود کا بہترین نظام قائم کیا جائے۔ 
اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم اور رحمت کے تقاضے سے انسانی ترقی اور کامیابی کے دوسرے طریقۂ کار کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے انبیا علیہم السلام اور رسول بھیجے۔ چناںچہ انھوں نے لوگوں کو اس دوسرے طریقۂ کار کی دعوت دی، اس پر لوگوں کو اُبھارا۔ البتہ پہلے طریقے کے حوالے سے انبیاؑ نے صرف چند ضمنی اشارات اور نتائج کے سوا اَور کچھ بیان نہیں کیا۔ و لِلّٰہ الحُجّۃ البالغہ (یہی اللہ کی بہت بڑی حجت ہے)۔‘‘ 

(باب توزُّع النّاس فی کیفیۃ تحصیل ہٰذہٖ السّعادۃ) 

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...