حق چھپانے اور اس میں باطل کی ملاوٹ کی ممانعت

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
ستمبر 01, 2020 - دروس القرآن الحکیم
حق چھپانے اور اس میں باطل کی ملاوٹ کی ممانعت

 وَلا تَلبِسُوا الحَقَّ بِالباطِلِ وَتَكتُمُوا الحَقَّ وَأَنتُم تَعلَمونَ

وَأَقيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ وَاركَعوا مَعَ الرّاكِعينَ
(اور مت ملاؤ صحیح میں غلط اور مت چھپاؤ حق کو جان بوجھ کر۔ اور قائم رکھو نماز اور دیا کرو زکوٰۃ۔ اور جھکو نماز میں جھکنے والوں کے ساتھ۔)  (42-43:2)


گزشتہ دو آیات سے بنی اسرائیل کی خرابیوں کا بیان جاری ہے۔ اُن سے کہا گیا ہے کہ: ’’معاہدات کی پاسداری کرو، کتابِ مقدس قرآن حکیم پر ایمان لاؤ اور اللہ کی آیات کو معمولی معاوضے کے عوض مت بیچو۔‘‘ ان آیاتِ مبارکہ میں ان کی مزید دو خرابیاں بیان کی جا رہی ہیں، جن سے بچنے کے لیے انھیں اصولِ دین قائم کرنے کا حکم دیا گیا۔ 
وَلا تَلبِسُوا الحَقَّ بِالباطِلِ : حق و باطل میں فرق اور امتیاز دینِ حنیفی کی بنیادی خصوصیات میں سے ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد ِمصطفی ﷺ تک تمام انبیا علیہم السلام دنیا میں حق اور سچ کو غالب کرنے اور باطل کو مٹانے کے لیے آئے ہیں۔ حقائق کے خلاف تمام اُمور باطل کہلاتے ہیں اور تمام ادیانِ الٰہیہ میں حقائق پر مبنی بنیادی اساسی اُمور حق اور سچ ہیں۔ دینِ حق کا جھوٹ اور باطل پر غلبہ ضروری ہے۔ مسخ شدہ مذہبیت میں حق و باطل میں تلبیس اور ملاوٹ کی جاتی ہے۔ زوال کے زمانے میں مذہبی طبقہ ایسے ہی امراض کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہودیوں کو بھی یہ مرض لاحق تھا کہ انھوں نے حق و باطل میں تلبیس پیدا کردی تھی، اس سے انھیں روکا گیا ہے۔ 
حق و باطل کی تلبیس کی حقیقت یہ ہے کہ دینِ حنیفی دو بنیادی اُمور پر مشتمل ہے: (1) دین کے کچھ اُمور فرائض و واجبات کے طو رپر ہیں، جو اصل مقصد ہیں۔ (2) کچھ اُمور اُن اصل اُمورِ مقصودہ تک پہنچنے کے ذرائع اور وسائل ہیں۔ تلبیس یہ ہے کہ دین کے ذرائع اور وسائل کو اصل مقصود بنا لیا جائے اور دین کے اصل مقاصد پسِ پُشت ڈال دیے جائیں۔ مثلاً سنن و مستحبات کو فرائض و واجبات کی طرح سمجھا جائے اور فرائض و واجبات کو نظرانداز کردیا جائے۔ یا اسی طرح مستحب اور سنت کی اصل حقیقت اور نوعیت کو سمجھے بغیر انھیں بالکل بھلا دیا جائے۔ دین کے کسی فریضے اور حکم کو اس کی اصل حقیقت اور نوعیت سے گھٹا‘ یا بڑھا دینا اور شریعت ِحقہ میں کمی اور زیادتی کرنا تلبیس کہلاتا ہے۔ اس لیے قرآن حکیم نے تمام لوگوں کو حکم دیا ہے کہ حق و باطل میں تلبیس نہ کریں۔ 
وَتَكتُمُوا الحَقَّ: دوسرا بڑا جرم یہ ہے کہ حق و باطل میں تلبیس کی بجائے سِرے سے حق ہی کو چھپا لیا جائے۔ یہ بھی بہت بڑا جرم ہے۔ زوال کے زمانے میں رجعت پسند مذہبیت اس مرض کا بھی شکار ہوتی ہے اور وہ دین کی سچی تعلیمات کو ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے عام لوگوں سے چھپاتی ہے۔ یہودیوں میں بھی زوال کے زمانے میں یہ مرض لاحق ہوچکا تھا۔ اس لیے قرآن حکیم نے خاص طور پر بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے حق کو چھپانے سے باز رہنے کا حکم دیا ہے۔ حق کو چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ: ’’جس آدمی سے کسی ایسے علم کے بارے میں سوال کیا گیا، جسے وہ جانتا ہے، پھر اُس نے اُسے چھپایا تو قیامت کے دن اُس کے منہ میں آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔‘‘ (مشکوٰۃ: 223) امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ: ’’ضرورت کے وقت علمِ حق کو چھپانا حرام ہے۔ اس لیے کہ ایسا کرنا دین کی توہین ہے۔ یہ شریعت کو بھلا دینے کا سبب بنتا ہے۔ اس طرح کرنے سے علم کا بڑا حصہ مٹ جاتا ہے۔‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ، من ابواب الاعتصام بالکتاب و السنۃ) 
حقیقت یہ ہے کہ جب دین کے نااہل نمائندے دنیاوی لذات اور خواہشات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور دین کے غلبے کا اہتمام نہیں کرتے اور نہ اُس کی تعلیم دیتے ہیں اور نہ اس پر ٹھیک طرح سے عمل کرتے ہیں، نیکیوں اور معروفات کا نظام نہیں بناتے، منکرات سے نہیں روکتے تو آہستہ آہستہ دین کے خلاف رسومات اور نظام ہائے حیات قائم ہوجاتے ہیں۔ یہ سچے علم کو چھپانے اور اُسے پڑھنے پڑھانے سے رُک جانے کے نتائج ہوتے ہیں۔ اس لیے خاص طور پر حق و باطل کی تلبیس اور سِرے سے حق کو چھپانے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ اس کو بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔ 
وَأَنتُم تَعلَمونَ: جانتے بوجھتے ہوئے اور صحیح علم رکھتے ہوئے یہ دونوں جرائم کرنا بہت بڑی خرابی ہے۔ غلطی اور غفلت سے اس طرح کی کچھ کوتاہی ہوجائے تو اپنی غلطی اور غفلت کو دور کرنے سے اس کی تلافی ہوجاتی ہے، لیکن جانتے بوجھتے ہوئے ان جرائم کا اِرتکاب سخت عذاب کا سبب ہے۔ یہ دین مٹانے کے مترادف ہے۔ 
وَأَقيمُوا الصَّلاةَ : ان دو خرابیوں کے مقابلے میں دین کی اصل تعلیمات کے دو بنیادی اساسی اُصولوں کو بروئے عمل لانا ضروری ہے: (1) ایک نماز قائم کرنا اور (2)دوسرے انسانیت کی خدمت کے لیے زکوٰۃ ادا کرنا۔ نماز باجماعت کا قیام لوگوں کو حق و باطل کی تلبیس سے روکتا ہے۔ اس لیے کہ جب سب لوگ اجتماعی طور پر مسجد میں مقرر کردہ طریقۂ عبادت کے مطابق نماز ادا کریں گے تو دینِ حق میں کسی مخصوص طبقے کو تلبیس کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ فرائض و واجبات پورے مسلم اجتماع کو معلوم ہوں گے۔ نوافل اور مستحبات کی اصل حقیقت اور نوعیت بھی سب لوگوں کو معلوم ہوگی۔ نماز باجماعت کا اہتمام ہر طرح کی تحریف اور تلبیس سے دین کو محفوظ رکھتا ہے۔ 


وَآتُوا الزَّكاةَ :  دین کا دوسرا اُصول زکوٰۃ ہے۔ یہ مالی بدعنوانی اور خواہشات سے روکتی ہے۔ عام طور پر مال کے لالچ میں آکر حق بات چھپائی جاتی ہے۔ جب ارتفاقاتِ ضروریہ کے تحت کوئی انسان محتاجوں اور غریبوں پر مال خرچ کرتا ہے اور حق کو حق دار تک پہنچاتا ہے تو وہ کتمانِ حق جیسے جرم سے محفوظ رہتا ہے۔  
وَاركَعوا مَعَ الرّاكِعينَ:یہودیوں کو خاص طور پر رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس لیے کہ اُن کی شریعت میں رکوع کی عبادت نہیں تھی۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ دینِ اسلام قبول کرکے رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ ایسی اجتماعی عبادت کا اہتمام کرو کہ جو حق و باطل کی تلبیس اور حق کو چھپانے سے روکنے کا سبب بنتی ہے۔ 

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...