رپورٹ؛ سید نفیس مبارک ہمدانی، لاہور
۷؍ ذوالحجہ ۱۴۴۰ھ / 9؍ اگست 2019ء کو حضرت مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں جمعتہ المبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’ذوالحجہ کی آٹھویں، نوویں اور دسویں تاریخ کو بالترتیب ’’یوم التّرویہ‘‘، ’’یومِ عرفہ‘‘ اور ’’یوم النحر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ تینوں وہ تاریخی دن ہیں کہ جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے امتحان لیا گیا کہ کیا تم اپنے لختِ جگر حضرت اسماعیلؑ __ جو بڑی تمناؤں اور آرزوؤں کے بعد بڑھاپے میں پیدا ہوئے __ کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ ساتویں اور آٹھویں کی درمیانی رات حضرت ابراہیمؑ کو خواب آتا ہے کہ اپنے اس لختِ جگر کو ذبح کرو۔ اب حضرت ابراہیمؑ کا اگلا سارا دن اس غور و فکر میں گزرتا ہے کہ یہ خواب شیطانی ہے یا رحمانی ہے؟ انسانیت کا قتل اور وہ بھی اپنی اولاد کا قتل!! کیا یہ اللہ کا حکم ہوسکتا ہے یا شیطان نے وسوسہ ڈالا ہے؟ یہ غور و فکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا۔ اس لیے اس دن کو یوم الترویہ کہا جاتا ہے۔ ’’ترویہ‘‘ رویہ سے ہے یعنی اللہ کے احکامات پر غور و فکر کرنا۔ اس لیے حضرت ابراہیم کی سنت ادا کرتے ہوئے سب لوگ ذوالحجہ کی آٹھویں تاریخ کو منیٰ کے میدان میں پہنچتے ہیں۔ ایک حاجی کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بھی منیٰ میں ترویہ اور انسانیت کے لیے غور و فکر کرے کہ میرے اعمال، میرے افکار و خیالات، میرے جذبات اور رویے کیسے ہیں؟ کیا یہ بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب انسانیت کے فائدے کے ہیں، یا انھیں نقصان پہنچانے کے ہیں۔
ذوالحجہ کی آٹھویں اور نوویں تاریخ کی درمیانی رات کو حضرت ابراہیمؑ کو پھر خواب آیا کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرنا ہے۔ یوم الترویہ کے غور و فکر اور دوسرے دن کے خواب کے بعد زوال کے بعد آپؑ کو معرفت اور عرفان حاصل ہوتا ہے کہ یہ بچے کا ذبح کرنا خواہشاتِ نفسانی، جدال اور جھگڑے اور فسق و فجور کے خاتمے کے لیے ہے۔ کیوںکہ اولاد کی بے جا محبت انسان کو جھگڑوںپر اُکساتی ہے۔ فسق و فجور پیدا کرتی ہے۔ زیادہ اولاد پیدا کرنے کی خواہش اور جنسی تعلق اس لیے قائم کرنا کہ زیادہ بیٹے پیدا ہوں اور میری طاقت اور رُعب میں اضافہ ہو اور میں دوسروں پر چڑھائی کرسکوں۔ اس لیے دوسری جگہ پر کہا گیا کہ ’’تمھاری اولاد اور تمھارا مال تمھارے لیے آزمائش ہے۔‘‘ (القرآن 15:64) اس لیے یہاں بیٹے کو ذبح کرنے کا مقصد انسانیت کا قتل نہیں، بلکہ دوسرے انسانوں کی بقا کے لیے اپنی اولاد کی جو حد سے بڑھی ہوئی خواہش ہے، اُسے ذبح کرنا ہے۔ یہی تمھارا امتحان ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کو معرفت کے حصول کی وجہ سے اس نوویں تاریخ کو یومِ عرفہ کہا گیا۔ اس لیے عرفات کے میدان میں پہنچ کر ایک حاجی کا نظریہ بھی درست ہونا چاہیے کہ وہ انسانوں میں بداَمنی پیدا نہیں کرے گا۔ جنسی خواہشات کی بنیاد پر مفادات نہیں اٹھائے گا۔لڑائی اور جھگڑے کا سبب؛ زن، زر، زمین کسی بھی بنیاد پر کوئی جھگڑا نہیں کرے گا۔ اگر ایک حاجی کو یومِ عرفہ میں یہ عرفان حاصل ہوگیا تو سمجھو صحیح حج ہوگیا۔ اسی کو حجِ مبرور کہتے ہیں۔ یہی حج درست حج ہے۔ اگر عرفان حاصل نہیں ہوا، بس ایک حج کی رسم پوری کی اور گزر آئے تو وہ صحیح طور پر حج ادا نہ ہوا۔‘‘
ٹیگز
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...