امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں: ’’جاننا چاہیے کہ فتنوں کی چند اقسام ہیں:
(1۔ فتنۂ شخصیت): انسان کا ذاتی فتنہ یہ ہے کہ اُس کا دل ایسا سخت ہوجائے کہ اُسے احکاماتِ الٰہی کی فرماں برداری کی حلاوت حاصل نہ ہو اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے مناجات کی لذت جاتی رہے۔ یاد رہے کہ انسانی شخصیت کے تین شعبے ہیں:
(۱) قلب: انسان میں تمام احوال و کیفیات کی ابتدا دل سے ہوتی ہے، مثلاً غصہ، جرأت، حیا، محبت، خوف، قبض (قلبی ناپسندیدگی)، بسط (دل کی کشادگی) وغیرہ۔
(۲) عقل: انسان کی عقل اُن علوم کا مرکز ہے، جو اُسے اپنے حواس (دیکھنے، سننے، چکھنے، سونگھنے اور محسوس کرنے) سے حاصل ہوتے ہیں۔ خواہ وہ تجربے، اندازے وغیرہ سے حاصل کیے ہوئے ’’بدیہی علوم‘‘ ہوں، یا دلیل و منطق اور مکالمے اور مباحثے سے ہونے والے نظریاتی علوم ہوں۔
(۳) طبیعتِ انسانی: یہ انسانی نفس کی بقا کے لازمی تقاضوں یا حیوانی تقاضوں کا مرکز ہے، جیسا کہ کھانا، پینا، سونا اور جنسی تعلق قائم کرنا وغیرہ۔
(قلبِ انسانی کی درجِ ذیل اقسام ہیں:)
(۱) قلبِ بہیمی: جب انسان کے دل پر حیوانی خصلتوں اور عادات کا غلبہ ہوتا ہے تو اُس کے دل کی خوشی اور تنگی کی کیفیت جانوروں کی طرح ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ اپنی طبیعت اور وہم کے سبب سے جانوروں میں ہوتا ہے۔ ایسا دل ’’قلب ِبہیمی‘‘ ہے۔
(۲) قلبِ شیطانی: جب انسان کا دل نیند میں یا جاگنے کی حالت میں شیطانی وسوسوں کو قبول کرتا ہے تو ایسے انسان کو ’’شیطان الانس‘‘ (انسانی شیطان) کہا جاتا ہے۔
(۳) قلبِ انسانی: جب انسان کا دل مَلَکیت کی عادات و احوال کا خوگر بنتا ہے تو ایسے دل کو ’’قلبِ انسانی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے تمام قلبی حالات و کیفیات؛ خوف اور محبت وغیرہ سچے افکار و خیالات اور صحیح نظریات کی طرف میلان رکھتے ہیں۔
(۴) قلبِ روحانی: جب انسانی دل کی مذکورہ بالا کیفیت مزید صاف ستھری ہوکر قوت حاصل کرلیتی ہے اور دل کا نور مزید بڑھتا ہے تو ایسے دل کو ’’روح‘‘ کہا جاتا ہے۔ چناںچہ وہ بغیر کسی دلی تنگی کے ان روحانی عادات سے خوشی محسوس کرتا ہے اور بغیر کسی تکلف اور تصنع کے اُن کیفیات سے مانوس ہوجاتا ہے۔ اس کی یہ کیفیات اس کے سانس کی طرح اس کی جان کا حصہ بن جاتی ہیں۔ مَلَکیت کے خواص اس کا مزاج بن جاتے ہیں،اس کے لیے اسے کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی۔
(عقلِ انسانی کی درجِ ذیل اقسام ہیں:)
(۱) (عقلِ بہیمی:) جب بھی عقل پر بہیمی عادات و اطوار غالب ہوجاتی ہیں تو وہ اس کے مکر و فریب اور دھوکے میں آجاتی ہے۔ اس کی عقل پر طبعی تقاضوں کو اُبھارنے والے نفسانی خیالات غالب ہوجاتے ہیں۔ چناںچہ اگر وہ جنسی طاقت رکھتا ہے تو اُس کے نفس میں جماع وغیرہ کے خیالات آتے ہیں۔ اگر وہ بھوکا ہو تو انواع و اقسام کے کھانوں کے خیالات غالب رہتے ہیں وغیرہ۔
(۲) (عقلِ شیطانی:) جب عقل پر شیطانی وسوسے اور خیالات کا غلبہ ہوتا ہے تو اُس کی عقل پر انسانی ترقی کے بہتر اجتماعی نظاموں کو توڑنے کے نفسانی خیالات غالب آجاتے ہیں۔ وہ انسانی اجتماع کے صحیح افکار و نظریات اور اعتقادات میں شکوک و شبہات کا شکار ہوجاتا ہے۔ اُس کا رُجحان سوسائٹی کے لیے ایسے بُرے کاموں کی طرف ہوجاتا ہے، جنھیں انسانوں کی فطرتِ سلیم قبول نہیں کرتی۔
(۳) (عقلِ سلیم:) جب اُس پر ایک درجے میں مَلَکی روح کی عادتیں غالب آتی ہیں تو اُسے ’’عقل‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایسی عقل بدیہی یا نظری طور پر حاصل علومِ ارتفاقات کو تسلیم کرتی ہے اور اللہ کی طرف رجوع سے متعلق علوم کی تصدیق کرتی ہے۔
(۴) (عقلِ سِرّی:) عقلِ سلیم جب مزید صاف ستھری ہوجاتی ہے اور اُس کا نور مضبوط ہوتا ہے تو اسے ’’سِرّ‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ غیب سے حاصل ہونے والے علوم کو قبول کرتی ہے۔ خواہ وہ علوم (سچے) خواب کی صورت میں حاصل ہوں، یا فراست، کشف اور کسی غیبی آواز وغیرہ کے ذریعے سے حاصل ہونے والے علوم ہوں۔
(۵) (عقلِ خفی:) جب عقلِ سِرّی‘ زمان و مکان سے بالا تر مجرداتِ عالَم اور ذاتِ باری تعالیٰ کی طرف میلان رکھے تو اُسے ’’خفی‘‘ کہا جاتا ہے۔
(طبیعتِ نفسانی کی درجِ ذیل اقسام ہیں:)
(۱) (نفسِ امارہ:) جب انسانی طبیعت‘ بہیمی عادات و اطوار کی طرف بہکنے لگے تو اسے ’’نفسِ امارہ‘‘ (برائی پر اُبھارنے والا نفس) کہا جاتا ہے۔
(۲) (نفسِ لوامہ:) جب انسانی طبیعت‘ بہیمیت اور مَلَکیت کے درمیان ڈولتی رہے اور وہ کبھی اِدھر (مَلَکیت) کبھی اُدھر (بہیمیت) چلی جائے تو وہ ’’نفسِ لوامہ‘‘ ہے۔
(۳)(نفسِ مطمئنّہ:) جب انسانی طبیعت‘ شریعت کی پابندیوں کو قبول کرے، اُس سے بغاوت نہ کرے، اُس کی اتباع سے بالکل نہ ہٹے تو وہ ’’نفسِ مطمئنّہ‘‘ ہے۔
(2۔ فتنۂ عائلی:) انسان کے گھر کا فتنہ یہ ہے کہ خاندانی نظام میں فساد پیدا ہوجائے۔ اس فتنے کی طرف نبی اکرمؐ نے اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے کہ: ’’ابلیس پانی پر اپنا تخت لگا کر بیٹھتا ہے ۔۔۔ پھر فرمایا: اُن شیطانوں میں سے ایک آتا ہے، وہ کہتا ہے: میں نے میاں بیوی کے درمیان تفریق پیدا کرا دی۔ تو شیطان اُسے اپنے قریب کرلیتا ہے اور اُسے کہتا ہے کہ تُو بہت اچھا شیطان ہے۔‘‘ (مسلم، حدیث: 7106)
(3۔ فتنۂ مملکت:) ایسا فتنہ جو دریا کی لہروں کی صورت میں ملکی قومی نظام میں فساد پید اکرتا ہے۔ ایسا فساد نااہل لوگوں کی طرف سے حکومت پر مسلط ہونے کی ناحق خواہش سے واقع ہوتا ہے۔ اس فتنے کے بارے میں رسول اللہؐ نے یہ فرمایا ہے کہ: ’’شیطان جزیرۃ العرب میں اپنی عبادت سے مایوس ہوچکا ہے، لیکن لوگوں کے درمیان فتنہ پروری کرکے لڑائی کرائے گا۔‘‘ (مسلم، حدیث: 7103) (حُجّۃ اللّٰہ البالغہ، باب الفتن)
ٹیگز
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...