جھوٹی خبر اور افواہ کی بنیاد پر اقدام تباہ کن ہے

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
جون 18, 2023 - خطباتِ جمعتہ المبارک
جھوٹی خبر اور افواہ کی بنیاد پر اقدام تباہ کن ہے

19؍ مئی 2023ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور میں خطبہ جمعتہ المبارک ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا:

’’دینِ اسلام مسلمان جماعت کی تعلیم و تربیت، عقل و شعور اور دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ایک ایسا تربیتی نظام بیان کرتا ہے، جس پر عمل کرکے مسلمان جماعت دنیا اور آخرت میں کامیابی کے مراحل طے کرسکے۔ ایمان والی جماعت کے فرائض اور     ذمہ داریاں کیا ہیں؟ معاشروں میں رہنے کا طریقۂ کار اور آداب کیا ہیں؟ انسانی معاشروں کی تشکیل کے لیے کن بنیادی اَخلاقیات کی پابندی کرنا ضروری ہے؟ قرآن حکیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس حوالے سے بڑی جامع اور نپی تُلی ہدایات جاری کی ہیں۔

نبی اکرم ﷺ نے جب مکہ کی ظالمانہ طاقت کو ختم کرکے مدینہ منورہ میں ایک انسان دوست ریاست تشکیل دی، مدینے کے معاشرے، سماج، سیاست، معیشت اور سوسائٹی کی دیگر ذمہ داریوںکو منظم کرنا شروع کیا تو اُن تمام عادات اور اجتماعی اَخلاق، جو کسی بھی انسانی معاشرے کو ترقی اور کامیابی کی منازل طے کرواتے ہیں، رسول اللہؐ نے اُس پر ہدایات جاری کیں۔ ایسے موقع پرقرآن حکیم کی جو آیات نازل ہوئیں، انھوں نے بھی جامع ہدایات دیں۔ ان میں سے یہ ایک بڑی ہدایت اللہ نے ارشاد فرمائی: ’’اے ایمان والو! اگر تمھارے پاس کوئی گناہ گار خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلو، کہیں جا نہ پڑو کسی قوم پر نادانی سے، پھر کل کو اپنے کیے پر پچھتانے لگو‘‘۔ (49: الحجرات: 6، ترجمہ شیخ الہندؒ)

اگر کوئی فاسق و فاجر کسی واقعے اور ایونٹ کے بارے میں، کسی معاملے کے متعلق، کسی جماعت، پارٹی اور قوم کے سلسلے میں کوئی خبر تمھارے تک پہنچائے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو۔ بغیر کسی تحقیق کے آمدہ خبر پر اقدام کرنا درست نہیں ہے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ تم اس خبر کی بنیاد پر کسی قوم اور پارٹی پر حملہ آور ہوجاؤ، اور پھر اس کے بعد تم شرمندہ ہو کہ ہم نے ایک جھوٹی خبر پر ایکشن لیا، ایک جھوٹی بات پر ہم نے یہ اقدام کیا ہے اور ندامت کے آنسو بہاؤ، معذرتیں کرو کہ غلطی ہوگئی۔ اس لیے اقدام سے پہلے لازمی اور ضروری ہے کہ اس کی تحقیق و تفتیش کرو کہ وہ خبر اور بات صحیح اور درست ہے، یا کسی فاسق اور جھوٹے آدمی نے جھوٹ گھڑ کے تمھیں کسی دوسری قوم کے خلاف اُکسایا ہے ۔

یہ بڑا اہم ادب ہے۔ انسانی معاشروں میں سوسائٹی کی ٹوٹ پھوٹ کے لیے یہ طریقۂ کار اختیار کیا جاتا ہے کہ جماعتیں اور گروہ اپنا من پسند طریقۂ کار اختیار کرکے کسی دوسرے کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرتی ہیں، جو بددیانتی پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کے ذریعے سے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ فرعون، نمرود، شداد، ہامان، جتنے بھی ظالموں کے واقعات قرآن حکیم نے بیان کیے ہیں، ان تمام میں ہمیشہ فرعونی حکومتوں خاص طور پر ان کی آلۂ کار قوتوں نے ہمیشہ اسی طرح کے اقدامات کیے ہیں‘‘۔

سیاسی قوت ’’اَحرار‘‘ کو مسجد شہید گنج کی سازش سے کمزور کیا گیا

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’ہمیشہ فرعونی اور سامراجی نظاموں کا یہ طریقۂ کار رہا ہے کہ باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ جھوٹ گھڑا جاتا ہے۔ اُسے پھیلایا جاتا ہے۔ اُس کو بنیاد بنا کر ایکشن لیا جاتا ہے۔ آزادی کی تحریکات کو دبایا جاتا ہے۔ رہنماؤں کی جدوجہد اور کوشش کو ناپاک عزائم کے ذریعے سے ناکام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

آپ دیکھئے کہ 1920ء کے بعد جب برعظیم ہندو پاک کے حریت پسندوں نے یہاں کی اس ظالمانہ برطانوی حکومت کے خلاف عدمِ تشدد کے اُصول پر اپنی تحریک منظم کی تو 15 سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد 1935ء میں حکومت مجبور ہوئی کہ وہ اس خطہ برعظیم پاک و ہند میں لوگوں سے ووٹ لے کر ان کی نمائندہ حکومتیں بنائی جائیں۔ پنجاب مسلمانوں کا اکثریتی صوبہ تھا اور یہ بات کنفرم تھی کہ اگر فیئر الیکشن ہوں گے تو پنجاب کی حکومت اکثریتی جماعت ’’اَحرار‘‘ بنائے گی۔

اب انگریزوں نے دیکھا کہ انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت الیکشن کا اعلان ہوگیا ہے اور اَحرار کے حکومت بنانے کے چانسز زیادہ ہیں، تو اسے ناکام بنانے کے لیے پلاننگ کی گئی، جس کا پورا نقشہ اور خاکہ شملہ کے سرکاری ایوانوں میں تیار کیا گیا، جس کے مطابق فوج میں شامل سکھوں کی طرف سے راتوں رات لاہور میں قائم مسجد عبداللہ خاں کو گرا کر سکھوں پر اِلزام لگایا گیا اور پورے لاہور میں اس وقت کے میڈیا کے ذریعے یہ پھیلا دیا گیا کہ سکھوں نے مسجد شہید کردی ہے۔ اس کے نتیجے میں فسادات کروائے گئے۔

احرار کے رہنما چوں کہ قومی سیاست میں کام کر رہے تھے اور فرقہ وارانہ لڑائیوں میں نہیں پڑتے تھے تو ان کے خلاف پروپیگنڈا شروع ہوگیا کہ دیکھو جی! مسجد گر گئی اور کیسے مسلمان رہنما ہیں کہ مسجد گرانے والوں کے خلاف کوئی جدوجہد نہیں کر رہے؟ یہ بھی پلاننگ کا حصہ تھا کہ اگر تو وہ حصہ لیں تو سکھوں سے کہا جائے کہ بھئی! تم جس جماعت کو پُر امن سمجھ رہے تھے، وہ تو تمھارے دشمن ہیں اور اگر وہ حصہ نہ لیں تو مسلمانوں سے کہا جائے کہ دیکھو جی! یہ تمھارے مسلمانوں کے لیڈر ایسے ہیں، ہمارا تو فلاں فلاں لیڈر آیا ہے، گورنر ہاؤس میں آکر اُس نے صلح صفائی کرائی ہے، مصالحتی بورڈ بنوایا ہے، تو اصل تو مسلمانوں کا لیڈر وہ ہوا، نہ کہ یہ اَحرار والے۔ اس طرح پنجاب کی سب سے بڑی جماعت اَحرار کو بدنام کرکے ناکام کردیا گیا اور پوری پلاننگ کے ساتھ ہرایا گیا۔

اس طرح جھوٹی خبریں پھیلا کر، غلط پروپیگنڈا کرکے پورے کے پورے منظرنامے کو اپنے من پسند الیکشن کے نتائج حاصل کرنے کے لیے پنجاب میں 1936ء کے الیکشن میں دھاندلی کا طریقۂ کار اپنایا گیا۔ یہ اس خطے میں ہونے والے سب سے پہلے الیکشن کی روداد ہے۔ اس کے بعد سے آج تک کون سا الیکشن ہے جو فیئر ہوا ہو؟ من پسند نتائج چاہئیں ہوتے ہیں، وہ نکلیں تو الیکشن ہوتا ہے، ورنہ الیکشن نہیں ہوتا‘‘۔

گزشتہ سو سال سے ہماری سیاست کا انداز نہیں بدلا

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’رسول اللہ ﷺ نے سورت الحجرات کی مذکورہ آیت کی تشریح میں فرمایا: ’’استقامت اور تحقیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے‘‘۔(تفسیر طبری) یعنی کوئی فاسق خبر دے تو اس کی اچھی طرح تحقیق اور تفتیش کرو۔ جلد بازی نہ کرو۔ ثابت قدمی سے کام لو۔ اشتعال انگیزی سے بچو، تو ٹھنڈے دل سے سوچو کہ اس خبر کے پیچھے ہے کون ہے؟ اصل مقصد سوسائٹی کی اجتماعیت برقرار رکھنا ہے۔ ہمیشہ سے جھوٹا پروپیگنڈا کرنے کے لیے پورے پلان بنائے جاتے ہیں۔ اس کو پھیلایا جاتا ہے۔ اس میں سب سے بڑا آلۂ کار میڈیا ہوتا ہے۔ اور میڈیا پر پابندی لگائی جاتی ہے کہ جو اصل صحیح بات ہو، جو پیار محبت والی ہو، وہ نہیں کرنی۔ لڑائی والی بات کرنی ہے، جلتی پر تیل ڈالنا ہے۔ سلگتی ہوئی خبر، ’’بریکنگ نیوز‘‘ پھیلانی ہے۔ آپ بتلائیے کہ جو نوآبادیاتی دور میں انگریز سامراج نے نظام قائم کیا تھا، کیا وہ ختم ہوگیا؟ کیا وہی المیے آج نہیں دُہرائے جا رہے کہ جھوٹے بت کھڑے کیے جاتے ہیں، ان کی بنیاد پر اپنی ہی قوم کے وسائل کو تباہ و برباد کیا جاتا ہے۔ آگ لگائی جاتی ہے۔ اپنے ہی بندے داخل کرکے انتشار پھیلایا جاتا ہے۔ ڈیوائیڈ اینڈ رول کی سیاست کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنی من پسند پارٹیوں کا تسلط کروایا جاتا ہے۔ وہ پارٹیاں جو کسی زمانے میں من پسند تھیں، ان کو اگر ختم کرنا ہو تو اس کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ یہی تو سسٹم کی خرابی ہے۔

آج ہمیں سوچنا چاہیے کہ 1936ء کے الیکشن میں اس پنجاب کی حقیقی قیادت کو پیچھے دھکیل کر جن لوگوں نے خوشیاں منائی تھیں، آج انھیں کی ذیلی پارٹیاں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف وہی کام کر رہی ہیں، جو اس پنجاب کی اس حقیقی پارٹی کے خلاف کیا تھا۔ یہ بھی سسٹم ہی کی پارٹیاں ہیں۔ یہ کون سی آزادی اور حریت کی پارٹیاں ہیں۔ یہ عبرت نہیں تو اَور کیا ہے؟ کم از کم آج پنجاب میں جو آگ بھڑک رہی ہے، اس کے لوگوں کو تو عقل سے کام لینا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے سو سال سے اب تک ہماری سیاسی بے شعوری کا سفر ہی چل رہا ہے، انتشار پھیلایا جا رہا ہے، اجتماعیت کو توڑنے اور اپنے ہی ملکی وسائل کو تباہ و برباد کرنے کا کردار ادا کیا جا رہا ہے۔

یاد رکھیے! جب تک یہاں کا مسلمان انگریزوں کے زمانے کی دو سو سالہ نوآبادیاتی تاریخ کی حقیقت نہیں سمجھے گا، اور اس تاریخ کو صحیح تناظر میں نہیں دیکھے گا، اس کے مسئلے حل نہیں ہوں گے۔ یہاں کی جتنی بھی انقلابی پارٹیاں ہوں، آزادی کے نعرے لگانے والی ہوں، تبدیلی اور انصاف کی دعوے دار ہوں، وہ پہلے دو سو سالہ انگریز سامراج کے تسلط کی تاریخ کے ظالمانہ حقائق تسلیم کریں۔ جو اپنی ماضی کی غلطیوں کو تسلیم نہیں کرتے اور حقیقت کی اَساس پر آگے نہیں بڑھتے، وہ کس بات کے انقلاب کے دعوے دار ہیں، وہ کس آزادی اور تبدیلی کی بات کرتے ہیں؟‘‘

تبدیلی کا حقیقی مفہوم اور اُس کی حکمت ِعملی

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ بنیاد کو سب سے پہلے ٹھیک کیا جائے، یہ نہیں کہ خستہ حال عمارت کے اوپر مزید نئی اور خوش نما عمارت بنانے کی کوشش کی جائے۔ آج جس سسٹم کی بنیاد جھوٹ، بددیانتی پر اور انگریز سامراج کے تسلط اور اُس کے مفادات کی اَساس پر ہے، اُس سے برأت کرنے کا اعلان کرنا ضروری ہے۔ آج ہم اس دھرتی پر انگریز دور سے پہلے کے اسلامی سسٹم اور رَواداری کے نظام کی بنیاد پر اپنی بنیاد قائم کریں اور جائزہ لیں کہ اس وقت کے اولیاء اللہ نے کیا کام کیا تھا؟ حضرت داتا گنج بخشؒ، شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ وغیرہ وغیرہ حریت پسندوں کی کیا تعلیمات تھیں؟ جو تاریخ کے اندر اس خطے کی اجتماعیت کو برقرار رکھنے والے ہیں۔ آج ہم انگریز کے بنائے ہوئے دو سو سالہ نوآبادیاتی دور کی بنیاد کو اُکھیڑ کر نہ پھینکیں اور اپنے ڈانڈے تاریخ کے اس سے پہلے کے دور کی رواداری، برداشت، انسان دوستی، آزادی اور حریت کی اَساس پر جب تک اپنا رشتہ وہاں تک نہ جوڑیں، پھر کہیں گے جی کہ تبدیلی آجائے، آزادی حاصل ہوجائے، معاشرہ بن جائے، ایسا نہیں ہوسکتا، کیوں کہ بنیاد ہی غلط ہے۔

بڑی بنیادی سی بات ہے کہ جب تک انگریز کے اُس دو سو سالہ دور کی غلامی کے اَثرات اور اُس سامراج سے برأت کا اعلان نہیں کرتے، اور جو آزادی اور حریت کا اسلام کا ہزار سالہ دور اس برعظیم پر حکمرانی کا ہے، اور خاص طور پر ریاستِ مدینہ میں جو رسول اللہ ﷺ انسانیت کے لیے رہنمائی اور ہدایت دے رہے ہیں، ان کو سامنے نہیں رکھتے، نہ آزادی ہے، نہ انقلاب ہے، نہ انصاف ہے، نہ تبدیلی ہے، نہ اسلام۔ قرآن کے خلاف کوئی بات کرکے اسلام کیسے آجاتا ہے؟ حضوؐر کے فرمان کے خلاف بات کرکے اسلام کیسے آجاتا ہے؟

مسلمان سمجھ دار ہوتا ہے، تبیُّن، تحقُّق اور تثبُّت کے ساتھ حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کے بعد فیصلہ کرتا ہے کہ اس خبر کے پیچھے یہ ڈوری کس نے ہلائی ہے؟ کہاں سے یہ بات آئی ہے؟ کیوں یہ بات یہاں پیدا ہوئی ہے؟ اور جو اس کو نہیں کرتا اور اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرتا ہے، یہ اللہ کی بات نہیں ہے، ضرور کسی شیطان کی ہے، اور شیطان دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک شیاطین الانس اور دوسرے شیاطین الجن۔

اس لیے آج سیاسی شعور کی ضرورت ہے۔ ظالمانہ نظام کے ہاتھوں استعمال ہونے اور اس سسٹم کے آلہ کار ہونے سے بچنا بہت ضروری ہے۔ قرآن نے کہا ہے کہ اچھی طرح تحقیق و تفتیش کرو، کھوج لگاؤ۔ تحقیقی ذہن ہونا چاہیے۔ جستجو کا ذہن ہونا چاہیے۔ شعور کا ذہن ہونا چاہیے۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے ثابت قدمی کے ساتھ غور و فکرکرو۔ جلد بازی سے بچو۔ یہ نہیں کہ ایک دم خبر آئی اور بھڑک اُٹھے۔ خبر آئی کہ ہنگامہ ہوا، ڈنڈے لے کر نکل آؤ، توڑ پھوڑ کرو، آگ لگاؤ، کیا اس سے انقلاب آتا ہے؟ عقل سے کام لینا چاہیے‘‘۔

ٹیگز
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

ادارہ رحیمیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کیمپس کا افتتاح

۲۱؍ ربیع الثانی ۱۴۴۰ھ / 7؍ دسمبر 2020ء بروز پیر وہ بابرکت دن تھا، جب ٹوبہ ٹیک سنگھ میں جناب ڈاکٹر محمدعنبر فرید اور اُن کے خاندان کی عطیہ کردہ جگہ پر ادارہ رحیمیہ علومِ قر…

انیس احمد سجاد جنوری 08, 2021

قرآن حکیم کی تعلیم و تربیت

18؍ دسمبر 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ میں 17 روزہ دورۂ تفسیرِ قرآن کے افتتاح کے موقع پر خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا: &…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جنوری 09, 2021

ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کا قیام و پس منظر، بنیادی مقاصد، تعلیمی و تربیتی سرگرمیاں

ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کا قیام ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ)ایک دینی، تعلیمی اور تربیتی مرکز ہے۔ یہ اپنی وقیع علمی حیثیت اور دین اسلام کے نظامِ فکروعمل کی شعوری تر…

ایڈمن فروری 10, 2021

مذہب لڑائی کا ذریعہ نہیں ہے

’’1920ء کے بعد دنیا نے یہ طے کرلیا کہ ریاستیں قومی تناظر میں وجود میں لائی جائیں گی۔ قوم کی جان، مال، رنگ، نسل، مذہب کا تحفظ ہوگا اور جمہوری اور ادارتی بنیاد…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جولائی 07, 2020