الٰہی ہدایات کے متبعین ہی کامیاب ہیں

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
جون 05, 2020 - دروس القرآن الحکیم
الٰہی ہدایات کے متبعین ہی کامیاب ہیں

قُلنَا اهبِطوا مِنها جَميعًا ۖ فَإِمّا يَأتِيَنَّكُم مِنّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ

وَالَّذينَ كَفَروا وَكَذَّبوا بِآياتِنا أُولٰئِكَ أَصحابُ النّارِ ۖ هُم فيها خالِدونَ

38-39:2) (ہم نے حکم دیا: نیچے جاؤ یہاں سے تم سب، پھر اگر پہنچے تم کو میری طرف سے کوئی ہدایت، تو جو چلا میری ہدایت پر، نہ خوف ہوگا اُن پر، اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اور جو لوگ منکر ہوئے اور جھٹلایا ہماری نشانیوں کو، وہ ہیں دوزخ میں جانے والے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔) 
گزشتہ آیت میں بتلایا گیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں توبہ کے کلمات ڈالے۔ انھوں نے توبہ کی اور اللہ نے اُن کی توبہ قبول کی۔ اس آیت میں بتلایا جا رہا ہے کہ اللہ نے توبہ قبول کرنے کے بعد اُنھیں زمین پر بھیج دیا، تاکہ کلماتِ توبہ کی روشنی میں ظلم مٹانے اور عدل کے قیام کے ذریعے دنیا میں خلافت کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ ان ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کرنے کے بعد جنت میں داخل ہوں۔ 
قُلنَا اهبِطوا مِنها جَميعًا ۖ : توبہ کی قبولیت کے بعد حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کی تمام اولاد کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا کہ اب تم فوری طور پر جنت میں داخل نہیں ہوسکتے، بلکہ دنیا میں جا کر اپنی توبہ کی سچائی ثابت کریں۔ اب اچھے اعمال و اَخلاق کے ذریعے سے ہی جنت میں داخل ہوسکتے ہیں۔ اس لیے کہا گیا کہ اب تم تمام یہاں سے اُتر جاؤ اور دنیا میں خلافت کی ذمہ داریاں ادا کرو۔ حضرت شیخ الہندؒ لکھتے ہیں: ’’حق تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کی توبہ تو قبول فرمائی، مگر فی الفور جنت میں جانے کا حکم نہ فرمایا، بلکہ دنیا میں رہنے کا جو حکم ہوا تھا، اُسی کو قائم رکھا۔ کیوںکہ مقتضائے حکمت ومصلحت یہی تھا۔ ظاہر ہے کہ (حضرت آدمؑ) زمین کے لیے خلیفہ بنائے گئے تھے، نہ کہ جنت کے لیے۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ جو ہمارے مطیع ہوں گے، ان کو دنیا میں رہنا مضر نہ ہوگا، بلکہ مفید۔ ہاں! جو نافرمان ہیں، اُن کے لیے جہنم ہے۔ اور اس (جنت اور جہنم کی) تفریق و امتحان کے لیے بھی دنیا ہی مناسب ہے۔‘‘ 
فَإِمّا يَأتِيَنَّكُم مِنّي هُدًى: اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ دنیا میں تمھاری ترقی اور کامیابی کے لیے میری طرف سے ہدایات نازل ہوں گی۔ انسانیت کو اپنی ترقی کے لیے ہدایات اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے صحیح علم اور صالح عدل پر مبنی ہدایات کا نازل ہونا ضروری ہے۔ چناںچہ اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایات انبیا علیہم السلام کے قلوب پر وحیٔ الٰہی اور اُن کے متبعین اولیا اور حکما کے قلوب میں الہامات کی صورت نازل کی ہیں۔ ان ہدایات کی روشنی میں خلافت کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے اعلیٰ علم و شعور اور عدل و انصاف پر مبنی حکمتِ عملی تمھیں حاصل ہوگی۔ 
فَمَن تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ: حضرت آدمؑ کی اولاد میں سے جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایات کی اتباع کریں گے، علم و عدل پر مبنی خلافت کی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے ادا کریں گے تو اُن پر نہ کوئی خوف طاری ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ حضرت شیخ الہندؒ تحریر فرماتے ہیں: ’’جو صدمہ اور اندیشہ کسی مصیبت پر اُس کے ہونے سے پہلے ہوتا ہے، اس کو ’’خوف‘‘ کہتے ہیں اور اُس کے واقع ہوچکنے کے بعد جو غم ہوتا ہے، اس کو ’’حزن‘‘ کہتے ہیں۔‘‘ گویا کہ مستقبل میں کسی کام کے نتیجے میں جو خطرات، مصیبت اور اندیشے لاحق ہوسکتے ہیں، ہدایاتِ الٰہی پر عمل کرنے والوں کو ایسا کوئی خوف لاحق نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ انھیں صحیح علم و شعور اور عدل و انصاف پر مبنی الٰہی تعلیمات کے صحیح نتائج پر پختہ یقین حاصل ہوتا ہے۔ وہ خوف کے زیراثر اپنے فیصلے نہیں کرتے، بلکہ ہدایاتِ الٰہی پر پختہ یقین اور بھرپور اعتماد کے ساتھ خلافت کی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ دینی تعلیمات پر پختہ یقین ہی انھیں خوف سے نجات دیتا ہے۔ 
ماضی میں کسی غلط کام کی وجہ سے پڑنے والی مصیبت اور تکلیف سے انسان پر غم اور حزن کی کیفیت طاری ہوتی ہے، لیکن جو لوگ اپنے ماضی میں بھی ہدایاتِ الٰہی کے مطابق انسانی معاشرے کی خدمات سرانجام دیتے رہے، انھیں کسی مصیبت کے موقع پر ایسا غم اور حزن لاحق نہیں ہوگا، جو اِن کی آئندہ کی کارکردگی پر اثرانداز ہو۔ وہ اپنی غلطی کو درست کرنے اور نئے عزم کے ساتھ ہدایاتِ الٰہی کی پابندی اور خلافت کی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کرنے کے لیے مایوسی کے بجائے ہمہ وقت پُرعزم اور عملی طور پر تیار رہتے ہیں۔ 
وَالَّذينَ كَفَروا وَكَذَّبوا بِآياتِنا أُولٰئِكَ أَصحابُ النّارِ ۖ هُم فيها خالِدونَ: حضرت آدمؑ کی اولاد میں سے وہ لوگ، جو ہدایاتِ الٰہی کا انکار کرتے اور اللہ کے احکامات کو نہیں مانتے، وہ جنت میں جانے کے مستحق ہرگز نہیں۔ انھوں نے حضرت آدمؑ کے کلماتِ توبہ کی خلاف ورزی کی ہے۔ وہ اپنے کیے ہوئے معاہدے یعنی ’’میثاقِ الست‘‘ سے روگردانی کر رہے ہیں۔ اس لیے وہ جہنم میں داخل ہوں گے۔ انھوں نے چوںکہ الٰہی تعلیمات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے خلافت سے متعلق اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھائیں، اللہ کے ساتھ کفر و شرک کرکے اپنے نفسوں پر ظلم ڈھایا ہے، انسانی حقوق پامال کیے ہیں، اس لیے وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔ 
شروع سورت سے اس آیت تک یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ حضرت آدمؑ دنیا میں اللہ کے خلیفہ بن کر آئے ہیں۔ قرآن حکیم کے نزول کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اللہ کی زمین میں آدمؑ کی اولاد کے متقی لوگ خلافت کا نظام قائم کریں۔ وہ ہدایاتِ الٰہی کے نور سے منور ہوکر ایک ایسی اجتماعیت قائم کریں، جو انسانی سماج میں خلافت کا نظام قائم کرے۔ جو لوگ کفر و ظلم اور نفاق کے مرض میں مبتلا ہیں، وہ اس قابل نہیں ہیں کہ وہ انسانی سماج کی تشکیلِ نو کرسکیں۔ صرف وہی جماعت کامیاب ہوگی، جو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں علم و شعور پھیلانے اور عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے جدوجہد اور کوشش کرے گی اور اللہ کا خلیفہ بن کر صحیح کردار ادا کرے گی۔ 

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...