۱۰؍ ذوالحجہ ۱۴۴۱ھ / یکم؍ اگست 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں خطبہ عید الاضحی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’معزز دوستو! یہ عید الاضحی کا بہت ہی مبارک دن ہے۔ اس کا شمار دینِ اسلام کی تاریخ میں عظیم ترین دنوں میں ہوتا ہے۔ اس دن کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جدوجہد سے ہوتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کل انسانیت کے امام ہیں۔ اُن کی امامتِ انسانی کے تقاضوں اور اللہ کی رضا کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کا سب سے پہلا اظہار اسی عظیم ترین دن میں ہوا ہے، جسے یَومُ النَّحَر (قربانی کا دن) کہا جاتا ہے۔ اس دن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپؑ کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے قربانی کی لازوال مثال رقم کی ہے۔
یہ دن مسلمانوں میں اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صدقِ قلب اور خلوصِ نیت کو سمجھا جائے۔ اُس کی اتباع کے لیے مسلمان جماعت تیار کی جائے۔ مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر چھوڑ کر، اپنے محلے کی مسجدیں چھوڑ کر، بلکہ اپنی جامع مسجد بھی چھوڑ کر باہر کھلے میدان کے اندر اجتماعِ عام کریں۔ مسلمانوں کی عظمت کی ابتدائی تاریخ جس سے اپنے نظریے کا خلوص اور اُس نظریے اور فکر کے مطابق کام کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، اس کا اظہار کریں۔ یہ کوئی رسمی عید نہیں ہے، بلکہ اس عید کا مطلب اپنے فکر اور نظریے کی یادداشت ہے۔ ہر سال جو نئے بچے ہوش کے دائرے میں قدم رکھتے ہیں، بلوغ اور شعور کی منزل کو پہنچتے ہیں، وہ اس دینِ متین کے بانی ابراہیمی ملت کی عظیم شخصیت، اُن کے عمل اور کردار کو دیکھیں، سمجھیں اور عمل کریں۔ جانور قربان کرنے کا عمل اور اس حوالے سے اس کی تاریخ سے آگہی حاصل کریں۔ جو قوم اپنی قومی اور ملّی تاریخ سے آگاہ نہیں ہوتی، وہ کبھی بھی اپنی شناخت قائم نہیں کرسکتی۔ اپنی عزت اور ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتی۔ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں، جو اپنے نظریے کا تاریخی تسلسل سمجھتی ہوں۔ اپنی تاریخ سے واقف ہوں۔ اپنے بنیادی فکر و عمل کو عملی طور پر انسانیت کے سامنے رکھنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہوں۔
پھر قربانی محض یہ نہیں ہے کہ اللہ کے راستے میں پیسے خرچ کردیے جائیں۔ آج کل کا سب سے بڑا فتنہ یہ بھی ہے کہ جی بس جانور ذبح کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ محض رقم اللہ کی راہ میں دینے، محتاجوں اور غریبوں کے لیے صدقہ اور خیرات کیے جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زکوٰۃ اور صدقہ و خیرات الگ سے ایک مد ہے کہ مالی قربانی آپ نے ادا کرنی ہے۔ اس کے لیے تو زکوٰۃ ہے، صدقہ اور خیرات ہے۔ عیدالاضحی کے روز تو دراصل اپنی حیوانیت اور بہیمیت __ جو سرمایہ پرستی کے حیوانی اور نفسانی تقاضے دل کے اندر اُبھارتی ہے __ پر جانور کو ذبح کرتے ہوئے چھری پھیرنا ہے‘‘۔
قربانی کے لیے حلال جانور قرار دینے کی حکمت
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
’’ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ انسان جو حیوان بن چکا ہو، اسے اپنی حیوانیت خود ہی ذبح کرنی چاہیے۔ لیکن اللہ نے یہ کرم کیا کہ اُس کی جگہ پر آپ کے مال سے خریدا ہوا وہ جانور، جو دراصل انسانی حیوانیت کی شکل اور تمثیل ہے، اُس کو اللہ کے راستے میں، اللہ کی رضا کے لیے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ قربانی کے لیے جانور بھی ایسا ہونا ضروری کہ جس میں کچھ مَلَکِیّت کے آثار پائے جاتے ہوں۔ ایسے جانور ذبح کرنے کا نہیں کہا گیا کہ جو ایسی خالص حیوانیت رکھتے ہیں، جن میں انسانیت کی نسبت سے کوئی اچھائی کے آثار نہیں ہیں۔ یہ جو قرآنی اصطلاح کے مطابق ’’ثمانیۃ اَزواج‘‘ (الانعام: 143) نر اور مادہ آٹھ جانور، چار نسلیں (بھیڑ، بکری، اونٹ، گائے) ہیں، اللہ نے انھیں حلال قرار دیا ہے، یہ سب دراصل وہ تمام جانور ہیں، جن میں مَلَکِیّت کا کچھ نہ کچھ حصہ موجود ہے کہ انھیں اللہ پاک نے انسان کے رزق کے لیے اوپر سے نازل کیا ہے (الزُّمر: 6)۔
ورنہ وہ تمام جانور جو خالصتاً ارضی اور حیوانی ہیں، وہ تو انسان کی صحت کے لیے مضر ہیں۔ شیر ہو یا چیتا جتنے بھی درندے ہیں، بھیڑیا اور دیگر نوچ کر کھانے والے جتنے بھی جانور ہیں، انسانیت کی نسبت سے اُن میں کوئی خیر کا پہلو نہیں ہے۔ اس لیے ان کو بطور رزق اور بطور قربانی ذبح کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ اُن کو اگر ذبح کریں بھی تو مَلَکِیّت کے ساتھ کوئی رابطہ پیدا نہیں ہوگا۔ مَلَکِیّت کے ساتھ رابطہ انھی جانوروں کے ذریعے ہوگا کہ جن کا ذبح کرنا حلال قرار دیا گیا ہے، وہ انسانیت کی ضرورت ہیں۔ اس کے جسم کی ضرورت ہیں۔ ایسے جانوروں کی روح ایک درجے میں انسان کی روح کے مشابہ ہے۔ انسان کی روحِ حیوانی اور روحِ مَلَکُوتی کے ساتھ ایک گونہ مناسبت رکھتی ہے۔ اس مناسبت کی وجہ سے اس جانور کو ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے ایسے جانوروں کا گوشت بڑا پاک، پاکیزہ اور بہت ہی بابرکت ہوتا ہے۔
مشائخ اولیاء اللہ کے ہاں قربانی کے گوشت کی ہمیشہ سے بڑی قدر اور عظمت رہی ہے۔ ہمارے حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ فرمایا کرتے تھے کہ: ’’یہ قربانی کا گوشت بہت بابرکت ہوتا ہے۔ اس کو سنبھال کر احتیاط کے ساتھ بڑی عظمت کے ساتھ کھانا چاہیے‘‘۔ اس لیے کہ اس جانور نے اللہ کے لیے اپنی جان قربان کی ہے۔ اس نے ابراہیم علیہ السلام کی عظمت اور اُن کے مشن کے غلبے کے لیے اپنی جان کو سپرد کیا ہے۔ اس لیے قربانی کا گوشت انتہائی بابرکت، بہت ہی عظمت والا، بہت ہی اہمیت والا ہے۔ یہی جانور اگر عام دنوں میں اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے، تب بھی پاکیزہ ہے، لیکن ایسے خاص دن میں، جس میں ابراہیم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک انبیا علیہم السلام کی ہمتیں، اُن کی جرأتیں، اُن کے عزائم، اُن کے ارادے، اُن کی نسبت اس جانور کو حاصل ہے۔ اس سے اس کا گوشت اَور زیادہ متبرک اور عظمت والا بن جاتا ہے‘‘۔
قربانی کے عمل میں دلوں کا تقویٰ مطلوب ہے
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
’’دین کے تمام اعمال تربیت کے لیے ہیں، رسم نہیں ہیں۔ پانچوں وقت میں ہر وقت کی نماز اُس وقت میں اپنے عزائم کو اور نیت کو درست کرنے، اخلاص اور للہیت کو پیدا کرنے کے لیے ہے۔ ہر سال کے روزے تربیت کے لیے ہیں۔ اسی طرح ہر سال عیدالاضحی کے دن جانور کی قربانی ادا کرنے سے انسان کو اپنی حیوانیت کو ذبح کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس سے بڑی اَور بات کیا ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ سال بھر میں جو حیوانی تقاضے تمھاری روح کے اندر داخل ہوگئے، تمھارے قلب، عقل اور نفس کے اندر پیوست ہوگئے، آج عیدالاضحی کے موقع پر جانور قربان کرکے اُنھیں دور کرنا ہے۔
اسی لیے نبی اکرم ْﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ جب ایک مسلمان عید کے روز جانور ذبح کرتا ہے اور اُس کا خون زمین پر بہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کی قربانی کو فوراً قبول کرلیتا ہے۔ اُس خون کے بہانے سے دراصل دل کا تقویٰ مطلوب ہے۔ ضروری ہے کہ قربانی کرنے والے کا یہ عمل خلوصِ نیت کے ساتھ ہو۔ اسی لیے قرآن حکیم میں فرمایا: اللہ تعالیٰ کو تمھارا یہ ظاہری گوشت اور خون کو مطلوب نہیں ہے۔ تمھارے دلوں کا تقویٰ اور ادب، اخلاص اور للہیت اللہ کو مطلوب ہے‘‘ (الحَجّ: 37) کہ تم کتنے مخلص ہو۔ کتنے مخلصانہ جذبے کے ساتھ تم نے قربانی کی ہے۔ کتنی چاہت اور محبت کے ساتھ کی ہے۔ تم نے اپنی حیوانیت اور بہیمیت پر کتنی طاقت اور قوت سے چھری پھیری ہے۔
جب تم نے خون بہا دیا، نیت کا اخلاص ظاہر ہوگیا اور جانور نے بھی اپنے آپ کو ذبح ہونے کے لیے پیش کردیا اور وہ ذبح ہوگیا۔ اب دونوں کے اخلاص کے نتیجے میں اُس جانور کے گوشت میں وہ برکات آگئیں کہ جن کا مقابلہ کسی دوسرے جانور کا گوشت نہیں کرسکتا۔ اس لیے حکم دیا گیا کہ یہ گوشت تم انسانوں میں تقسیم کرو، رشتہ داروں میں تقسیم کرو، خود قربانی کرنے والا کھانا چاہے تو اُس کے لیے بھی کھانا جائز قرار دے دیا کہ بابرکت ہے۔ اس لیے برکت کو خود بھی کھاؤ، دوسروں کو بھی کھلاؤ۔ ورنہ جو خالص صدقہ ہے، یا جو کوئی نذر کا جانور ذبح کیا جاتا ہے، اس میں کوئی مال دار یا ذبح کرنے والا خود نہیں کھا سکتا۔ وہ صرف غریبوں اور یتیموں ہی کو دینا پڑتا ہے۔ لیکن قربانی کے گوشت میں کوئی فرق نہیں ہے کہ مال دار ہے، غریب ہے، یتیم ہے، مسکین ہے، خود ہے، تمام اس بابرکت گوشت کو کھائیں اور انسانیت کے لیے اس کو خرچ کریں۔ اس کے چمڑے کو بھی خود استعمال کرسکتا ہے۔ کسی کو استعمال کے لیے دے سکتا ہے۔ کسی غریب کو دے سکتا ہے۔ اُجرت کے بدلے میں نہ چمڑا دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی گوشت دیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ قصاب نے دراصل تمھاری طرف سے جانور ذبح کرنے کا عمل کیا ہے۔ اُس کی اُجرت علاحدہ سے دینی پڑے گی۔ اس جانور کے گوشت یا اُس کے چمڑے کے ساتھ اُجرت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ احکام اور ہدایات دراصل نیت کو خالص کرنے کے لیے ہیں‘‘۔
قربانی کا عمل اعلیٰ ترین مقاصد کے لیے ٹریننگ ہے
حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:
’’قربانی کا عمل غلبہ دین کے اعلیٰ ترین مقاصد کے لیے ٹریننگ ہے۔ ایسا انسان جو خلوصِ نیت کے ساتھ صرف انسانیت کے لیے کام کرنے کا جذبہ رکھتا ہے، اپنی حیوانیت، ذاتی لذات و خواہشات کو انسانیت کی خاطر قربان کردیتا ہے، ایسا فرد جب حکمرانی قائم کرے گا تو عدل و انصاف اور میرٹ پر انسانیت کے لیے فیصلہ کرے گا۔ قومی بیت المال اُس کے سپرد ہوگا تو وہ انسانوں پر خرچ کرے گا، خود اپنے اور اپنے رشتہ داروں کو نوازنے کا کام نہیں کرے گا۔ اُسے کوئی سیاسی عہدہ ملے گا تو اُس عہدے میں وہ خدمتِ انسانیت کے جذبے سے کام کرے گا، نہ یہ کہ اُس عہدے سے ناجائز مفادات حاصل کرے گا۔ گویا قربانی کا جذبہ ایک ایسی ٹریننگ اور تربیت پیدا کرتا ہے، جس کے نتیجے میں تیار ہونے والی جماعت کُل انسانیت کے مفادات کے لیے کردار ادا کرتی ہے۔ اگر قربانی کے باوجود بدانتظامی ہو، مالی بدعنوانی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قربانی نہیں تھی، وہ رسم تھی۔ وہ قربانی رشوت اور لوٹ مار کے پیسوں سے محض نمود و نمائش کے لیے ہوئی تھی۔
جب سسٹم خراب ہوتا ہے اور لوگ رشوت اور ظلم کے مال سے قربانیاں کرتے ہیں تو وہ قربانیاں کوئی اثر اور نتیجہ پیدا نہیں کرتیں۔ اس لیے اصل چیز ’’تقویٰ القلوب‘‘ ہے۔ دلوں کے تقویٰ کا مقصد حضرات ابراہیم و اسماعیل اور حضرت محمد مصطفی صَلوَاتُ اللّٰہ علیہم اَجمعین کے اُس نظریے کو زندہ کرنا ہے، جس کے ذریعے سے ایسی ’’حزب اللہ‘‘ جماعت تیار ہو، جو دنیا میںلِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ(الصّف: 9) کا کردار ادا کرے۔ سچے اور پکے مخلص انسان ہوں اور انسانیت کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے کردار ادا کریں۔
آج ہم قربانی کرنے چلے ہیں تو ہمیں اپنے دلوں کی حالت کو درست کرنا ہے۔ عزائم اور اِرادے صحیح کرنے ہیں۔ نیت ٹھیک کرنی ہے۔ نیت کا فساد ختم کرنا ہے۔ زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ اپنے جانور پر خود اپنے ہاتھ سے چھری پھیریں۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو کم از کم اپنی آنکھوں کے سامنے جانور ذبح کرائیں، تاکہ اُس کے ذریعے سے وہ کیفیت اپنے دل میں پیدا کریں کہ اس کے ذریعے سے میری نفسانی خواہشات پر چھری چل رہی ہے۔ اُس کو ذبح کرنے کا عزم اور ارادہ ہو اور اب خالصتاً ایمان کے تقاضے سے، انسانیت کے لیے اور انسانی ذمہ داری کے ساتھ کام کرنے کا عزم اور ارادہ کرے۔ اسی لیے ذبح کے وقت یہ دعا اُسے پڑھنی ہے کہ:اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ(انعام: 79)۔ پھر یہ دعا بھی پڑھے: اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (انعام: 162) کہ میری نماز، میرا یہ قربانی کا عمل، میرا جینا، میرا مرنا، میری تمام چیزیں خالصتاً اُس اللہ کے لیے ہیں، جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں پہلا مسلمان بنوں۔ اس عزم، اس ارادے کے ساتھ جب ہم جانور ذبح کریں تو پھر تو اس کے فوائد اور ثمرات ہوں گے۔ اخلاص اور للہیت پیدا ہوگی‘‘۔
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...
متعلقہ مضامین
دینی بے شعوری کا غلاف ؛ تباہی کا راستہ
سورت البقرہ کی گزشتہ آیت (87) میں یہ حقیقت واضح کی گئی تھی کہ جب بنی اسرائیل میں سوسائٹی کی جامع دینی تعلیمات کے حوالے سے تقسیم و تفریق کا رویہ پیدا ہوا اور وہ صرف رسمی …
ذی الحجہ کے پہلے دس دن کی فضیلت
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ، قَالَ: قَالَ رَسُولَ اللّٰہﷺ: ’’مَا مِنْ أیَّامٍ، الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیْھِنَّ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ مِنْ ھٰذِہِ الْأَیَّامِ الْعَشْرِ‘‘۔ فَقَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! ولَا الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ ا…
تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی
گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …
بنی اسرائیل کے لیے قومی اور ملکی سطح کا اجتماعی نظام
وَإِذ قُلتُم يا موسىٰ لَن نَصبِرَ عَلىٰ طَعامٍ واحِدٍ فَادعُ لَنا رَبَّكَ يُخرِج لَنا مِمّا تُنبِتُ الأَرضُ مِن بَقلِها وَقِثّائِها وَفومِها وَعَدَسِها وَبَصَلِها ۖ قالَ أَتَستَبدِلونَ الَّذي هُوَ أَدنىٰ بِالَّذي هُوَ خَيرٌ ۚ اهبِطوا مِصرًا فَ…