عید الاضحی کا دن منانے کے تصور کا پسِ منظر

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
جولائی 21, 2022 - خطبات تربیت
عید الاضحی کا دن منانے کے تصور کا پسِ منظر

عید الاضحی کا دن منانے کے تصور کا پسِ منظر

۱۰؍ ذوالحجہ ۱۴۴۲ھ / 21؍ جولائی 2021ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ عید الاضحی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’معزز دوستو! آج عید الاضحی کا مبارک دن ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کے لیے جو ایام مقرر کیے ہیں، ان میں یہ دو دن بہت اہمیت کے حامل ہیں: ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحی۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ دنیا میں ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید کے دن ہیں۔ عیدالاضحی کا دن ہمارے لیے خوشی اور اللہ کے شکر و اِمتنان کا دن ہے۔ اللہ کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا دن ہے۔

دنیا بھر میں ہر قوم اپنی عید کیوںمناتی ہے؟ اس کی بنیادی حقیقت یہی ہے کہ جو قوم جس فکر اور نظریے کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے، اس فکر و نظریے کی جو بنیادی شخصیت یا اُس قوم کا دنیا میں آغاز کرنے والا جو فرد ہوتا ہے، اُس کی یاد کے طور پر عید کا دن منایا جاتا ہے۔ یا کوئی قوم اپنی اجتماعی تشکیل کے لیے جو نظریہ اور فکر و آئین اختیار کرلیتی ہے، اس کے نفاذ کے دن کو اپنے لیے بہ طور عید کے مناتی ہے۔

ماضی کی آٹھ دس ہزار سال پرانی اقوام ہوں، یا آج کے جدید دور کی اقوام ہوں، ان کی تعمیر و تشکیل کے مراکز ہی اُن کی عید منانے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ انسانیت کے لیے معیار اور نمونے تین ہی ہوسکتے ہیں: (1) مقام، (2) زمان اور (3)افراد۔ انھیں کی بنیاد پر عید یا خوشی کا کوئی دن دنیا میں منایا جاتا ہے۔ اس قوم کے کوئی افراد ہوں گے، جنھوں نے کوئی کردار ادا کیا ہوگااور اُنھوں نے وہ کردار کسی مقام پر اور کسی زمانے میں ادا کیا ہوگا ہے۔ تو وہ زمانہ، تاریخ، یا مقام کو لوگ یاد رکھتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر خاص دن مقرر کیے جاتے ہیں۔

یہ انسان کی فطرت ہے کہ تمام اجتماعیتوں اور معاشروں کی تشکیل میں یہ بنیادی اُمور رہے ہیں، لیکن تجزیہ‘ یہ کرنا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کل انسانیت کی فلاح و بہبود کا جو پروگرام انسانیت کے سامنے رکھا گیا، اُس کے کچھ مشترکات ہیں، جن پر یہ عید الاضحی کا دن مشتمل ہے۔ یہ عید حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اُس عمل کی یاد میں منائی جاتی ہے، جو آپؑ نے دسویں ذوالحج کو اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربانی کے لیے پیش کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام تمام انسانیت کے جدِ امجد اور فکری رہنما ہیں۔ یہودی بھی انھیں اپنے نظریے اور فکر کا بانی مانتے ہیں اور عیسائی بھی انھیں تسلیم کرتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ ہندوؤں کے ہاں بھی برہما کا بنیادی تصور دراصل ابراہیم علیہ السلام ہی کے تصور کا ایک رُخ ہے، جس کو انھوں نے خدا کا درجہ دے دیا۔ مسلمان بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حنیفی تحریک کے بانی نبی کے طور پر مانتے ہیں۔ گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام ایسی شخصیت ہیں، جنھیں دنیا کے تقریباً تمام لوگ کسی نہ کسی انداز میں اپنا رہنما مانتے ہیں۔ اس طرح یہ عید الاضحی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت سے ایک بین الاقوامی عید ہے‘‘۔

کعبۃُ اللّٰہ کی مرکزیت اور حضرت ابراہیمؑ کی قربانی کا عمل

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’پورے کرۂ ارض کا مرکز اور محور جس پر پوری کرۂ ارض کی گردش جاری ہے، وہ خانۂ کعبہ ہے۔ مشاہدات و تجربات اور سائنٹفک اسلوب پر بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس کرۂ ارض کا مرکزی اور محوری مقام خانۂ کعبہ اور حرمِ مقدس ہے۔ یہ کل انسانیت کا مرکز ہے۔ تمام انبیا علیہم السلام نے اس کا طواف کیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ جب حج کے موقع پر مزدلفہ سے منیٰ تشریف لا رہے تھے اور منیٰ سے مکہ تو فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس وادی سے فلاں فلاں نبی گزر رہے ہیں۔ یعنی ماضی کی تاریخ کی تصویر نبی اکرم ﷺ کو دکھا دی گئی کہ حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دیگر انبیا علیہم السلام کے تسلسل کا وہ مرکز رہا ہے۔ ہندوؤں کی اتنی بڑی اجتماعیت کے ہاں اور ان کی ویدوں میں بھی اس حرم کا تذکرہ ملتا ہے۔ حرمِ مقدس میں طواف کے لیے جانا، سات چکر کاٹنا، پھر ہندوؤں کے ہاں شادی کے موقع پر سات پھیروں کا ہونا دراصل خانۂ کعبہ کے طواف کا ہی تصور ہے، جو ہندوستانی وہاں سے لے کر آئے تھے۔

احادیث کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ذوالحج کی آٹھ تاریخ کو یہ خواب آتا ہے، یہ الہام ہوتا ہے کہ اپنے بیٹے کو ذبح کیجیے۔ اس دن کو ’’یوم الترویہ‘‘ کہتے ہیں۔ ترویہ رویے سے ہے۔ رویہ انسان کے اند رجو سب سے پہلے خیال آتا ہے، تخیل پیدا ہوتا ہے، اُس تخیل کو عربی میں رویہ کہتے ہیں۔ یوم الترویہ اس لیے کہ اس قربانی کرنے کا خیال، خواب یا الہام حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس دن آیا۔ اور یہ عجیب خواب تھا کہ انسان‘ انسان کو ذبح کرے؟ ابراہیم علیہ السلام کا دل کہتا ہے کہ پتہ نہیں یہ خدشہ ہے یا دھوکا ہے۔ کیسا خواب ہے۔ ابراہیم علیہ السلام یہاں سے نکل کر جب عرفات میں پہنچتے ہیں، اور عرفات کے میدان میں تشریف فرما ہیں، تو عرفہ کی رات نوویں ذی الحج دوسری مرتبہ یہی خواب دیکھتے ہیں۔ اور یہی خواب جو پہلے ’’رویہ‘‘ کی شکل میں تھا، دُھندلا خیال تھا، عرفہ کے میدان میں یہ پوری معرفت کے ساتھ الہام ہوتا ہے، جس میں انسان کو عرفان حاصل ہوتا ہے۔ پورا وجود اس کے رنگ میں رنگا جاتا ہے اور اس خیال کے بارے میںکسی قسم کا بہ ظاہر شک و شبہ نہیں رہتا۔ اس لیے اس کو یومِ عرفہ کہا جاتا ہے کہ وہ تصور اور تخیل جو آٹھ تاریخ کو بہ طور ایک رویے اور خیال کے آیا تھا، وہ نو ذوالحج کے دن میں بڑی وضاحت کے ساتھ اور پوری معرفت اور عرفان کے ساتھ ان کے سامنے آتا ہے۔ اب وہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض شیطانی خیال نہیں ہے۔ یہ نفس کا محض دھوکا نہیں ہے۔ محض ایسا تخیل نہیں ہے کہ جو ناقابلِ عمل ہو، یہ قابلِ عمل ہوسکتا ہے۔ اب وہاں سے پختہ عزم کرکے چلتے ہیں اور اگلے تیسرے دن دس ذوالحج کو اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لٹایا اور اُن پر چھری پھیری، جس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا عطا فرمایا۔ اس طرح یہ پورا کا پورا قربانی کا عمل وجود میں آگیا، اس لیے اس دن کو ’’یوم النّحر‘‘ کہتے ہیں‘‘۔

حقیقی قربانی کے اَہداف

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ عید الاضحی کے موقع پر اپنی نفسانی حیوانیت ذبح کرنے کے نقطہ نظر سے جانور قربان کرے۔ نمود و نمائش کے لیے نہیں۔ اور نہ اس لیے کہ یہ گوشت کھائیں گے۔ ورنہ تو ویسے ہی ذبح کرکے گوشت کھایا جاسکتا ہے۔ عید الاضحی کے موقع پر جانور ذبح کرنا اس دن کا سب سے افضل ترین عمل ہے۔ یہ دراصل اپنے وجود پر چھری پھیرنا ہے۔ کون سا وجود؟ یہ بات سمجھنے کے قابل ہے۔ اس سے وہ وجود مراد ہے، جس میں خواہشات بھری ہوئی ہوں۔ سرمایہ پرستی، ظلم، تکبر، غرور، حسد، کینہ، بغض، عداوت اور حیوانیت کے اثرات ہوں، جیسے دوسرے انسانوں کو حقیر سمجھنا ہے وغیرہ وغیرہ تمام بداَخلاقیوں پر چھری پھیرنا ہے۔ چھری پھیرتے وقت یہ نیت اور عزم ہو تو پھر تو قربانی واقعتا قربانی ہے۔ اور محض رسم ہو، محض روایت ہو، محض کھانے پینے کا معاملہ ہو، تو یہ کوئی قربانی نہیں ہے۔ اس لیے اللہ پاک نے قرآن حکیم میں واضح طور پر کہہ دیا کہ ’’اللہ کو ان جانوروں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا‘‘۔ کیوں کہ اللہ کو نہ بھوک لگتی ہے، نہ پیاس لگتی ہے، اُس نے گوشت کا کیا کرنا ہے؟ ’’بلکہ اس قربانی سے تمھارے دلوں کا تقویٰ اللہ تعالیٰ کو مقصود ہے کہ تم متقی بنو‘‘ (-22 الحج: 37) حسد، کینہ، بغض، عداوت، ظلم، انسانیت دشمنی کے رویے اپنے اندر سے نکالو اور اللہ کے ساتھ سچا تعلق قائم کرو۔ اللہ نے جو انسانیت کی خدمت کا، عدل کا، انصاف کا، سخاوت کا، خیرخواہی کا جذبہ تمھارے لیے لازمی قرار دیا ہے، اُسے اپنی زندگی کا حصہ بناؤ۔ دلوں کا ادب پیدا کرو۔ دلوں کو مہذب بناؤ۔ سوسائٹی کے مہذب فرد بنو۔ حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا کہ: ’’دلوں کا ادب اللہ کو پہنچتا ہے‘‘۔ ادب کا مطلب وہ آداب اور ایس او پیز ہیں، جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ اور اُس کی مخلوق انسانیت خوش ہوتی ہے۔

وہ لوگ جو جانور کے ذبیحے کے خلاف محض روپے پیسے کے بانٹنے کی بات کرتے ہیں، وہ انسان نہیں ہیں۔ کیوں کہ وہ اپنے اندر کے جانور کو ذبح نہیں کرنے دینا چاہتے۔ اُن کی روحِ ملکوتی تو چھپ گئی۔ انھوں نے اس کی توانائی اور طاقت کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ اپنی حیوانیت کو غالب کرلیا۔ ان کا انسانیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

اور یاد رکھو! مال داروں کے لیے جانور ذبح کرنا اس لیے ضروری ہے کہ جب صاحبِ استطاعت اور مال دار ہوتا ہے تو اُس کی حیوانیت، اُس کا جانور ہونا زیادہ غالب آتا ہے۔ بے چارہ غریب آدمی جس کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہے، کبھی گوشت نہیں کھایا، اُس کے اندر حیوانیت کیسے آئے گی؟ وہ حسد کرکے کیا کرے گا؟ اُس کے پاس تو ضرورت کی چیزیں نہیں ہیں تو وہ بے چارہ کسی انسان کو کیا نقصان پہنچائے گا؟ جس کے اندر یہ استطاعت ہے کہ سرمایہ رکھتا ہے، دولت رکھتا ہے، جس کے اندر حسد، کینہ اور بغض و عداوت پنپنے کے مواقع ہیں، اُس کی حیوانیت کے اُبھرنے کے، اُس کے ڈنگ مارنے کے اثرات ہیں، اُسی کو تو کاٹ کر پھینکنا ہے۔ اس لیے ہر صاحبِ استطاعت پر قربانی کرنا واجب قرار دیا گیا، ہر غریب آدمی پر لازمی نہیں‘‘۔

قربانی میں جانور ذبح کرنا ضروری ہے

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’جو صاحبِ حیثیت اور مال دار عید الاضحی کے موقع پر جانور قربان نہیں کرتا اور اُس کے لیے طرح طرح کے وسوسے، خیالات اور دلائل دیتا ہے، یہ اس کا حیوانی پن ہے کہ ابھی اس کی بہیمیت نہیں گئی۔ جہاں جہاں مسلمان ملک ہیں، وہاں وہاں یہ سامراجی سرمایہ دار اور نام نہاد دانش ور پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ’جی حکومت کو پیسے دے دو اور حکومت چاہے تو صرف ایک قربانی کردے، جو ساری قوم کی طرف سے قربانی ہوجائے گی‘‘۔ یہ تو وہ حکمران ہیں جو ملک اور قوم کا پیسہ کھا جاتے ہیں۔ قربانی کا پیسہ بچے گا ان کے پاس؟ انھوں نے تو ملک پر خوب قرضے چڑھا کر اپنی اپنی جیبیں بھری ہیں۔ اپنے اپنے مفادات کا سرمایہ پرستی کا نظام بنایا ہے۔ یہ تو سرمایہ داری کا نقطہ عروج ہے۔ سرمایہ داری کی نمائندگی ہے۔ اس کا اسلام اور دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کا تعلق تو انسانیت سے ہے کہ انسان اپنے اپنے جانور کو خود ذبح کرے۔ اپنے ہاتھوں سے کرے اور ہاتھوں سے نہیں کرسکتا تو اپنی نظروں کے سامنے کروائے، تاکہ اُس کا وہ عزم، وہ ارادہ، اُس کے وجود کا حصہ بنے۔ یہ بنیادی تعلیم ہے جو دینِ اسلام نے آج کے دن کے لیے دی ہے۔

یہ لوگ خود ساختہ دلائل کی بنیاد پر اُس بنیادی حقیقت کا انکار کر رہے ہیں، جو چودہ سو سال سے نبی اکرم ﷺ کے بعد سے اور سات آٹھ ہزار سال سے ابراہیم علیہ السلام کے بعد سے انسانیت کی تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ اُس کے خلاف یہ لوگ بے سر و پا باتیں کرتے ہیں۔ ان سے اچھا تو وہ رُوس کا صدر ہے، جس نے عید الاضحی کے دن کی تعریف کرتے ہوئے تمھاری اس قربانی کے عمل کے لیے تمھیں مبارک باد دی ہے۔

دوسری بڑی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ عید کی نماز ادا کرنا، اللہ کے سامنے سر بہ سجود ہونا اور اُس کے نام کی بڑائی کا اعلان کرنا انسانی تربیت کے لیے ضروری ہے۔ وہ جانور جسے تم نے اللہ کے نام پر ذبح کیا ہے، اُس کا گوشت اس نیت سے کھانا چاہیے کہ اس کی حیوانیت اللہ کے نام پر ذبح ہوئی ہے۔ اس میں ہماری خالص نیت کے اثرات آگئے ہیں۔ اور اُن اثرات کے نتیجے میں اس بابرکت گوشت کا استعمال ہم کر رہے ہیں۔ یہ انبیا علیہم السلام کی سچی تعلیمات ہیں اور نبی اکرم ﷺ کا یہی معمول تھا۔

عید الاضحی کا دن کسی ایک قوم، کسی ایک نسل، کسی ایک علاقے کے لیے نہیں ہے۔ ہندوستان ہو، پاکستان ہو، حرمین شریفین ہو، امریکا ہو، برطانیہ ہو، روس ہو، چین ہو، جہاں بھی دنیا بھر کا مسلمان ہے، وہ یہ سنت ادا کرکے اس کے ذریعے سے اپنی حیوانیت کو ذبح کرے، اپنے اَخلاق درست کرے، امنِ عالم کا نمائندہ بنے اور انسانیت کی ترقی اور فلاح و بہبود کی سوچ کے ساتھ اپنا کردار ادا کرے‘‘۔

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...

 

متعلقہ مضامین

احکام ومسائل قربانی و عیدالاضحی

احکام ومسائل قربانی و عیدالاضحی 1۔ ہر ایسے مسلمان عاقل، بالغ مرد و عورت پر قربانی کرنا واجب ہے، جو عیدالاضحی کے دن مقیم ہو اور صاحب ِنصاب‘ یعنی شریعت کی مق…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جولائی 21, 2022

عیدالاضحیٰ کے دن کی تاریخی اہمیت

۱۰؍ ذوالحجہ ۱۴۴۱ھ / یکم؍ اگست 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں خطبہ عید الاضحی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’&rsqu…

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جولائی 07, 2021

احکام ومسائل قربانی و عیدالاضحی

1۔ ہر ایسے مسلمان عاقل، بالغ مرد و عورت پر قربانی کرنا واجب ہے، جو عیدالاضحی کے دن مقیم ہو اور صاحب ِنصاب‘ یعنی شریعت کی مقرر کردہ مال کی مقدار کا مالک ہو۔ …

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری جولائی 07, 2021

ذی الحجہ کے پہلے دس دن کی فضیلت

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ، قَالَ: قَالَ رَسُولَ اللّٰہﷺ: ’’مَا مِنْ أیَّامٍ، الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیْھِنَّ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ مِنْ ھٰذِہِ الْأَیَّامِ الْعَشْرِ‘‘۔ فَقَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! ولَا الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ ا…

مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز جون 14, 2023