آج جدید دور‘ ٹیکنالوجی کا دور ہے، جہاں لین دین کے نظام کو سافٹ ویئرز کی مدد سے بڑی حد تک فعا ل کرلیا گیا ہے۔ لوگوں کے پاس لین دین کے ایسے ذرائع آچکے ہیں، جنھیں سمجھنا اور اس کے بعد ان میں سے ٹیکس کی صورت میں اپنا حصہ نکالنا حکومت کے لیے ایک مشکل کام بن چکا ہے۔ حکومتی عمال عام طور پر اپنے کام میں جدت کے قائل نہیں ہوتے۔ ان کی اس ’خاصیت‘ کی وجہ سے ٹیکنالوجی میں طاق عام عوام بہ آسانی انھیں چکمہ دے لیتے ہیں۔ جدید دور میں لین دین کے نظام میں کرپٹو کرنسی کی صورت میں انقلابی تبدیلی آچکی ہے۔ وہ وقت دور نہیں، جب حکومت کی اپنی رِٹ __ جو بینکنگ اور کرنسی کے نظام کی بنیاد پر قائم رکھتی تھی اور من مرضی کے ٹیکس جمع کرتی تھی __ کمزور پڑتی جائے گی۔ بینکنگ فراڈ، جمع کھاتوں میں پڑی رقم کا غلط استعمال، آن لائن چوری، بینک میں پڑی رقوم پر حکومتی اداروں کے لامتناہی اختیارات، جہاں ٹیکس والے کچھ بھی کہہ کرلوگوں کو ان کی دولت سے محروم کردیں، یہ سب تدریجاً ختم ہوتا چلا جائے گا اور بلاک چینBlock Chainٹیکنالوجی کی بدولت اب دنیا ایک نئے ورلڈ آرڈر کی جانب گامزن ہے۔
کرپٹو کرنسی میں سٹّے بازوں کی موجودگی نے بھی اسے اتنا نقصان نہیں پہنچایا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ آزادی ہے اور اس پر کسی حکومت کا تصرف نہیں ہے۔ اس وقت اس شعبے کی عالمی سطح پر مالیت 15 کھرب ڈالرز تک جا پہنچی ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی اور کرپٹو میں فرق ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی کی ریگولیٹر مرکزی حکومت ہوتی ہے اور یہ نظام پیپر کرنسی جیسا ہی ہے، لیکن ’بلاک چین‘ ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والی کرپٹو کرنسی کا ریگولیٹر کوئی نہیں۔ اس نیٹ ورک کے ممبران ہی اس کے ریگولیٹر ہیں اور ان سب کے پاس اس سے متعلق لین دین کا مکمل ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں جھوٹ، دھوکا، زبردستی وغیرہ کم از کم نیٹ ورک کی سطح پر نہیں ہوسکتا اور لین دین کسی بھی حکومتی ایجنسی یا بدنیت لوگوں سے بلا خوف و خطر رواں دواں رہے گا۔
اس ٹیکنالوجی کی بنیاد پر اب تو ووٹنگ کا نظام بھی وضع کیا جا رہا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی ہیئت 5GاورQuantum Computingکی آمد کے بعد مکمل تبدیل ہوجائے گی۔ کیوں کہ اس کے بعد ڈیٹا پروسیسنگ کی رفتار میں ناقابلِ یقین حد تک اضافہ ہو جائے گا۔ حالیہ دنوں میں چینی کمپنی نےQuantum Computerکے ذریعے ایک ریاضی کی مساوات کا حل ستر منٹ میں نکال لیا، جسے گوگل کو حل کرنے میں آٹھ سال لگے تھے۔ وہ وقت دور نہیں کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ اس طریقۂ تبادلہ کو اپنا لے گی اور اندازہ ہے کہ اوّل درجے میں حکومتوں کی معاشی اجارہ داری کو زک پہنچے گی، جو بالآخر عالمی ریاستی ڈھانچے کو بدل ڈالے گی۔
ٹیگز
محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
معاشی بقا میں آفت زدہ پاکستانیوں کا کردار
اگست 2022ء میں سب مشکل میں تھے۔ ڈالر اور مہنگائی بے لگام تھے۔ آئی ایم ایف سرکار نالاں تھی کہ پاکستان وعدہ خلاف ہے۔ اس تناظر میں سب سانس روک کر بیٹھے تھے کہ کہیں 1.2 ارب …
گھر بنانے کا خواب
پاکستان کی آبادی ہر سال چالیس لاکھ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ برصغیر کے تناظر میں یہ افغانستان کے بعد سب سے زیادہ شرح نمو ہے ۔ایسے ہی شہروں کی طرف نقل مکانی کی سب سے زیادہ …
ڈالر سے محبت ہی بہت ہے؟
پاکستان پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا حجم 410 کھرب روپے کے لگ بھگ ہوچکا ہے۔ ایک سال کے دوران اس میں اوسطاً 30 کھرب روپوں کا اضافہ ہو ہی جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے اخراجا…
عالمی مالیاتی بحران ابھی ٹلا نہیں
ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی، برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے جدید مالیاتی نظام کی بنیاد رکھی تھی۔ مشترکہ سرمائے کی طاقت سے ان کمپنیوں نے برصغیر، مشرقِ بعید اور چین میں سترہویں اور اٹھار…