أَتَأمُرونَ النّاسَ بِالبِرِّ وَتَنسَونَ أَنفُسَكُم وَأَنتُم تَتلونَ الكِتابَ ۚ أَفَلا تَعقِلونَ
(کیا حکم کرتے ہو لوگوں کو نیک کام کا، اور بھولتے ہو اپنے آپ کو؟! اور تم تو پڑھے ہو کتاب۔ پھر کیوں نہیں سوچتے ہو؟)
بنی اسرائیل کی خرابیوں کا سلسلۂ بیان جاری ہے۔ اُن کی چند بنیادی خرابیوں کے بیان کے بعد علمائے یہود کی ایک اہم خرابی اس آیت ِمبارکہ میں بیان کی جا رہی ہے۔ یہاں اُن کے علما سے سوال کیا جا رہا ہے کہ خود عمل کیے بغیر دوسروں کو نیکیوں کی دعوت دینا، خود عمل نہ کرنا اور اپنے آپ کو بھلا دینا کیا خلافِ عقل و دین نہیں ہے؟
أَتَأمُرونَ النّاسَ بِالبِرِّ: علمائے سو اور رہنمایانِ بدکردار سے پوچھا جا رہا ہے کہ تم عام لوگوں کو ’’بِرّ‘‘ (نیکی) کا حکم کرتے ہو؟ ’’بِرّ‘‘ کیا ہے؟ اس کی جامع حقیقت بیان کرتے ہوئے حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’بِرّ کی حقیقت میں: (الف) ہر وہ عمل داخل ہے، جو انسان ملائِ اعلیٰ کی فرماں برداری اختیار کرتے ہوئے کرتا ہے اور اللہ کے احکامات اور حق تبارک و تعالیٰ کی مراد کو پورا کرنے کے لیے خود فنا ہوجاتا ہے۔ (ب) ہر وہ عمل جس پر دنیا یا آخرت میں اچھا بدلہ دیا جائے۔ (ج) ہر وہ عمل جو اُن تمام ارتفاقات کو درست کرے کہ جن پر انسانیت کا نظام استوار ہے۔ (د) ہر وہ عمل جو اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے فرماں برداری کی حالت کے لیے مفید ہو اور اُس راہ میں حائل (طبعی، رسمی اور عقلی) حجابات کو دور کرے۔‘‘
نیکیوں کے یہ امور ایسے ہیں کہ جن پر تمام مذاہبِ الٰہیہ اور انسانیت کے عقل مندوں میں اتفاق پایا جاتا ہے۔ علمائے یہود کی کتاب ’تورات‘ میں بھی انھی اصولی نیکیوں کی دعوت دی گئی ہے۔ علمائے اہلِ کتاب بھی لوگوں کو انھی کاموں کے کرنے کا حکم دیتے تھے۔ بہ ظاہر ان احکامات اور نیکیوں کی مخالفت نہیں کرتے تھے، لیکن خود انھوں نے ان احکامات کو عملی طور پر نظرانداز کرتے ہوئے بھلا رکھا تھا۔ انھی اصولوں کی روشنی میں آج کتابِ مقدس قرآن حکیم حق کا پیغام لایا ہے تو اُسے بھی یہ لوگ نظرانداز کرتے ہیں۔
وَتَنسَونَ أَنفُسَكُم: حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ: ’’بعض علمائے یہود یہ کمال کرتے تھے کہ اپنے لوگوں سے کہتے تھے کہ یہ دینِ اسلام اچھا ہے اور خود مسلمان نہ ہوتے تھے۔ اور نیز علمائے یہود، بلکہ اکثر ظاہر بینوں کو اس موقع پر یہ شبہ پڑ جاتا تھا کہ جب ہم تعلیمِ احکامِ شریعت میں قصور (کمی) نہیں کرتے اور حق پوشی بھی نہیں کرتے تو اس کی ضرور ت نہیں کہ ہم خود بھی احکام پر عمل کریں۔ جب ہماری ہدایت کے موافق بہت سے آدمی اعمالِ شریعت بجا لاتے ہیں تو بحکمِ قاعدہ ’’الدّالُّ علٰی الخیرِ کَفاعلہٖ‘‘ (نیکی کے کام کی رہنمائی دینے والا اُسے کرنے والے کی طرح ہے) وہ ہمارے ہی اعمال ہیں۔ تو اس آیت میں دونوں کا بطلان فرما دیا گیا۔ اور آیت سے مقصود یہ ہے کہ واعظ کو اپنے وعظ پر ضرور عمل کرنا چاہیے۔ یہ غرض نہیں کہ فاسق کسی کو نصیحت نہ کرے۔‘‘ امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’کسی کتاب کا صحیح طور پر پڑھانا اُسی مدرّس کے لیے ممکن ہوتا ہے، جو اُسے اچھی طرح سیکھے، سمجھے اور عمل کرے۔ اسی طرح ہر داعی کو کسی خُلق کی دعوت دینا تبھی مناسب ہے، جب وہ خود اُس خُلق پر عمل کرے۔ نیز کسی آدمی کے لیے نیکی کے اعمال پر لوگوں کو اُبھارنا اُسی وقت اثرانگیز ہوگا، جب وہ اُس نیکی پر خود عمل پیرا ہو۔ ان شرائط پر عمل نہ کرنے والے لوگوں پر یہ آیت صادق آتی ہے۔ یہود کے علما اسی طرح کی غلطیوں کا ارتکاب کرتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے انھیں متنبہ کیا۔‘‘
وَأَنتُم تَتلونَ الكِتابَ: کتابِ الٰہی کی تلاوت کرنا اور اُس کے احکامات پر عمل نہ کرنا، اُس میں بیان کردہ اَخلاق اپنے اندر پیدا نہ کرنا‘ بہت بڑی خرابی ہے۔ کتبِ الٰہیہ میں موجود احکامات لوگوں کو صرف اس غرض سے سنائے جائیں کہ اُس کے ذریعے سے اپنا مذہبی بھرم رکھا جائے اور انھیں ڈرا دھمکا کر مفادات اُٹھائے جائیں۔ لوگوں کے سامنے ایسی بے روح تلاوت کی جائے، جس کا کوئی اثر خود تلاوت کرنے والے کے حلق سے نیچے نہ اُترا ہو۔ جیسا کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ: ’’یخرج ناس من قِبلِ المشرق، و یقرؤن القرآن، لا یجاوز تراقِیَہُم‘‘ (کچھ لوگ مشرق کی جانب سے نکلیں گے اور قرآن پڑھیں گے، لیکن وہ اُن کی حلق سے نیچے نہیں اُترے گا)۔ (صحیح بخاری: 7562)
قوموں پر جب زوال آتا ہے تو وہ اپنی کتابِ الٰہی کے حوالے سے اسی طرح کے پست رویوں کے حامل بن جاتی ہیں۔ وہ لوگوں کو اپنے دین کی دعوت دیتے ہیں اور خود داعیین اُس پیغامِ الٰہی کے مطابق اپنا معاشرہ تشکیل نہیں دیتے۔ انسانی ترقی کے اعلیٰ اَخلاق چھوڑ دیتے ہیں۔ ارتفاقات کا نظام فاسد اور فرسودہ بنا دیتے ہیں۔ دین پر عمل پیرا رہنے والے اچھے انسان تیار کرنے میں رُکاوٹ بن جاتے ہیں۔ وہ اپنے طبعی، رسمی اور عقلی حجابات کی وجہ سے اللہ کی طرف رجوع اور انسانیت کی خدمت کے اعلیٰ نظامِ فکر و عمل کو قائم نہیں کرتے، بلکہ اُس کے راستے میں سد ِسکندری بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
أَفَلا تَعقِلونَ: قرآن حکیم نے زوال پذیر قوموں کے علما اور رہنماؤں سے مذکورہ بالا سوال کرنے کے بعد اُن کی عقل و شعور کو جھنجھوڑا ہے۔ کیا یہ عقل کے خلاف بات نہیں کہ خود عمل نہ کرو اور دوسروں کو ظاہری طور پر عمل کی دعوت دو؟ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ انسان جس خُلق اور عمل کو اچھا سمجھتا ہے، سب سے پہلے اُس پر خود عمل کرے۔ پھر اُس پر جماعت بنائے۔ اُس کے ذریعے سے معاشرے میں عملی نظام قائم کرے۔ اگر اُس نے اپنی ذاتی زندگی میں تبدیلی نہیں کی تو وہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر انسانیت میں کیا انقلاب برپا کرے گا؟ وہ تو عالمی قیادت سے محروم ہوگیا۔ اس آیت میں واضح کیا گیا کہ یہودیوں کا فکر و عمل قابلِ تقلید نہیں رہا، بلکہ قرآن حکیم کی تعلیمات اور اُن پر عمل کرنے والی سچی اور متقی جماعت قائم کرنے کی ضرورت ہے، جو الٰہی تعلیمات کی ہر طرح سے پابند ہو۔
ٹیگز
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم
حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ
سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔
1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔
15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...