اَندلُس میں مسلمانوں کی عادلانہ حکومت کا آغاز۹۲ھ / 711ء میں ہوا۔ علم و ادب کی ترقی و ترویج اگرچہ قدرے تاخیر سے ہوئی، لیکن حکمرانوں کی ذاتی دلچسپی اور سرپرستی کی وجہ سے اَندلُس علم و ادب کا گہوارہ بن گیا۔ ایک وقت آیا کہ اَندلُس کا ہر آدمی لکھنا پڑھنا جانتا تھا، جب کہ مسیحی یورپ علم کی مبادیات ہی جانتا تھا اور وہ بھی چند اراکینِ کلیسا ہی۔ اس دور میں صرف قرطبہ میں آٹھ سو کے قریب تعلیمی ادارے تھے، جہاں ثانوی و اعلیٰ تعلیم کا انتظام تھا۔ جامعہ قرطبہ دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی تھی، جہاں طبیعیات، ریاضیات، فلکیات، کیمیا، طب اور فلسفے سمیت تمام علوم پڑھائے جاتے تھے۔ جہاں سے ایسے عالی قدر علما و سائنس دان پیدا ہوئے، جنھوں نے مختلف علوم و فنون کی نئی جہتیں دریافت کیں۔ اور ان علوم و فنون کے مُوجِد کہلائے اور آج تک ان کے علوم سے انسانیت مستفید ہو رہی ہے۔
اس دور میں فلسفے کے جو مکاتبِ فکر وجود میں آئے، ان میں سے ایک ارسطاطالیسی (ارسطوی) مدرسۂ فکر جس کے نمائندہ فلسفی ابنِ طفیل اور ابنِ رُشد تھے۔ دوسرا افلاطونی مدرسۂ فکر جس کے نمائندہ محی الدین ابنِ عربی تھے۔ اسلام کے زرّیں عہد میں اسلامی فلسفے کی تعلیم کا پوری دنیا میں آغاز ہوا اور بے شمار ماہرین پیدا ہوئے۔ یہ فلاسفہ لا یعنی مسائل پر بحث نہیں کرتے تھے، بلکہ ان کی بحث اس اساسِ صداقت پر ہوتی تھی، جس پر نظمِ کائنات قائم ہے، مثلاً اسلامی فلسفے کے چند موضوعات یہ تھے: باری تعالیٰ اور کائنات، صفاتِ الٰہیہ کی حقیقت، خیر و شر کی تشریح، تلاشِ مسرت، لذت و اَلم کی حقیقت، اقوام کی بقا و فنا، وحدتِ انسانیت وغیرہ۔
اَندلُس کے چند فلاسفہ: اس دور کے مشہور فلسفی ابنِ طفیل کی کنیت سے معروف ہیں، ان کا پورا نام ابوبکر محمد بن عبدالملک بن محمد بن طفیل (1110 - 1185ء) ہے۔ یہ غرناطہ کے رہنے والے تھے۔ یہ بہ یک وقت طبیب، فلسفی، ادیب، ماہرِ الٰہیات و فلکیات اور ناول نگار تھے۔ یہ طنجہ کے حکمران ابویعقوب بن یوسف کے طبیبِ خاص تھے۔ بعد ازاں قاضی کے عہدے پر فائز ہوئے اور پھر وزیر بنائے گئے۔ ابنِ رُشد کے مربی و استاد تھے۔ انھیں کی سفارش پر ابنِ رُشد کو دربار تک رسائی ہوئی۔ انھوں نے بے شمار کتابیں لکھیں۔ تاریخ فلسفہ کے دیباچے کے آخر میں ابنِ طفیل نے امام غزالی، ابنِ سینا اور ابنِ باجہ (ابوبکر محمد بن یحییٰ) کی بہت تعریف کی ہے۔ ان کی تمام تصانیف کو پادریوں نے جلا دیا تھا۔ صرف ایک فلسفیانہ ناول باقی رہ گیا تھا، جو ’’حی بن یقظان‘‘ کے نام سے معروف ہے، جس کا بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ اس میں انھوں نے واضح کیا ہے کہ انسانی فکر کی انتہا ذاتِ خداوندی ہے اور حیات کی آخری منزل اللہ سے ملاقات ہے۔
ٹیگز
مفتی محمد اشرف عاطف
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
اَندلُس کے علما و سائنس دان ؛ علامہ ابنِ رُشد اَندلُسیؒ
قرطبہ (اَندلُس) کے ایک بڑے فلسفی، طبیب، محدث، فقیہ، جن کا شُہرہ پوری دنیا میں ہوا۔ ان کی کتابیں ترجمہ ہو کر یورپ میں پڑھی پڑھائی جانے لگیں۔ جن کو دنیا ابنِ رُشد مالکی اَندلُسیؒ …
طارق بن زیاد ؛ فاتح اندلس
طارق بن زیاد خلافت ِبنی اُمیہ کے مسلم جرنیل تھے۔ وادیٔ تافنہ الجزائر میں ۵۰ھ / 670ء میں پیدا ہوئے اور دمشق میں 720ء میں تقریباً پچاس سال کی عمر میں وفات پائی۔ ان کا افریقا ک…
یورپ میں بنواُمیہ کی فتوحات اور علوم و فنون کی ترقی
تاریخ میں بنواُمیہ کا دورِ حکومت سیاسی اور دینی وحدت کے اعتبار سے سنہری اور فتوحات کا دور تھا۔ اُموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں موسیٰ بن نُصَیرافریقا کے گورنر تھے۔ طارق…
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …