قرطبہ (اَندلُس) کے ایک بڑے فلسفی، طبیب، محدث، فقیہ، جن کا شُہرہ پوری دنیا میں ہوا۔ ان کی کتابیں ترجمہ ہو کر یورپ میں پڑھی پڑھائی جانے لگیں۔ جن کو دنیا ابنِ رُشد مالکی اَندلُسیؒ کے نام سے جانتی ہے۔ آپؒ کا پورا نام ابوالولید محمد بن احمد بن محمد بن احمد بن رُشد القرطبی الاندلُسی ہے۔ آپؒ 14؍ اپریل 1126ء کو پیدا ہوئے۔
آپؒ کے والد اور دادا قرطبہ کے قاضی رہ چکے تھے۔ گھر کا ماحول علمی تھا۔ والد کی نگرانی میں آپ کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ ابنِ طفیل اور ابنِ اظہر جیسے مشہور علما سے دینی علوم، فلسفہ، قانون، علم الحساب اور علمِ فلکیات کی تعلیم حاصل کی۔ حصولِ علم میں اپنی تمام تر توانائیاں صَرف کیں۔ ان کے ہم عصر گواہی دیتے ہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی میں سوائے دو راتوں کے کبھی مطالعہ کرنا نہیں چھوڑا۔ پہلی رات وہ تھی جب آپ کے والد کا انتقال ہوا اور دوسری رات وہ تھی جب آپ کی شادی ہوئی۔
علامہ ابنِ رُشد علم و معرفت کے ذریعے کمالِ انسانی پر یقین رکھتے تھے۔ فلسفے کے ساتھ ساتھ حدیث و فقہ میں بھی کمال مہارت تھی۔ نحو و لغت پر بھی کمال کی دسترس تھی۔ مشہور شعرا متنبی اور حبیب کے اشعار کے حافظ تھے۔ تصنیفات کے حوالے سے دیکھیں تو انھوں نے ہر فن پر خامہ فرسائی کی۔ فلسفہ، طب، فقہ و اصولِ فقہ، علمِ کلام، علمِ ہیئت، علمِ نحو، الغرض! کسی بھی علمی موضوع کو تشنہ نہیں چھوڑا۔ ان کی مشہورِ زمانہ کتاب ’’بدایۃ المجتہد‘‘ فقہ مالکی پر مشتمل ہے۔ اسے علمی دنیا کی نہایت وقیع کتاب ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس کا انداز انتہائی مؤثر ہے۔ مصنف سب سے پہلے کسی بھی مسئلے پر تمام فقہا کے دلائل پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد سبب ِاختلاف ذکر کرتے ہیں اور راجح مؤقف کی طرف اشارہ کرتے ہیں، تاہم بہت سے مقامات پر صرف دلائل پر اکتفا کیا ہے اور فیصلہ قاری پر چھوڑ دیا ہے۔ علامہ ابنِ رُشدؒ امام مالکؒ کے مقلد ہیں، لیکن وہ کسی موقع پر بھی جانب دار نظر نہیں آتے۔ یونان کے مشہور فلسفی ارسطو کے فلسفے کی نہایت شرح و بسط کے ساتھ تشریح کی، جن کے یورپ کی مختلف زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں۔
ابنِ رُشدؒ کا مؤقف تھا کہ جو بھی انسانی اعضا کے بارے میں علم حاصل کرے گا، اللہ پر اُس کا ایمان اَور پختہ ہوجائے گا۔ ابنِ رُشدؒ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ چوں کہ فلسفی اور معقولات کے عالم تھے، اس لیے ان کو تصوف سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ تصوف سے بہت زیادہ متأثر تھے۔ ان کا مؤقف تھا کہ فلاسفہ کے لیے اس بات کی زیادہ گنجائش ہے کہ وہ قرآن حکیم کی تفسیر کریں۔ کیوں کہ وہ سائنس اور فلسفے کی سچائیوں کو زیادہ جانتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ علوم کا مرکز اور منبع تھے، لیکن دیگر اہلِ علم کی طرح ان پر بھی آزمائشیں آئیں۔ ہسپانوی خلیفہ یعقوب نے ابن رُشدؒ کی تصنیفات پر پابندی لگا دی اور انھیں جلاوطن کردیا۔ وہ مراکش چلے گئے اور وہیں 10؍ ستمبر 1198ء کو تقریباً 72 سال کی عمر میں وفات پائی۔
ٹیگز
مفتی محمد اشرف عاطف
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
اندلُس کے علما و سائنس دان
اَندلُس میں مسلمانوں کی عادلانہ حکومت کا آغاز ۹۲ھ / 711ء میں ہوا۔ علم و ادب کی ترقی و ترویج اگرچہ قدرے تاخیر سے ہوئی، لیکن حکمرانوں کی ذاتی دلچسپی اور سرپرستی کی وجہ سے اَن…
طارق بن زیاد ؛ فاتح اندلس
طارق بن زیاد خلافت ِبنی اُمیہ کے مسلم جرنیل تھے۔ وادیٔ تافنہ الجزائر میں ۵۰ھ / 670ء میں پیدا ہوئے اور دمشق میں 720ء میں تقریباً پچاس سال کی عمر میں وفات پائی۔ ان کا افریقا ک…
یورپ میں بنواُمیہ کی فتوحات اور علوم و فنون کی ترقی
تاریخ میں بنواُمیہ کا دورِ حکومت سیاسی اور دینی وحدت کے اعتبار سے سنہری اور فتوحات کا دور تھا۔ اُموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں موسیٰ بن نُصَیرافریقا کے گورنر تھے۔ طارق…
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …