قرآن حکیم میں معاشرتی مسائل کا تجزیاتی اُسلوب اور علم و شعور کی نعمت کا تجزیہ

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
فروری 17, 2025 - خطباتِ جمعتہ المبارک
قرآن حکیم میں معاشرتی مسائل کا تجزیاتی اُسلوب اور علم و شعور کی نعمت کا تجزیہ

قرآن حکیم میں معاشرتی مسائل کا تجزیاتی اُسلوب اور علم و شعور کی نعمت کا تجزیہ

17؍ جنوری 2025ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہورمیں خطبہ جمعتہ المبارک ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا:

’’معزز دوستو! کتابِ مقدس قرآن حکیم انسانی معاشروں کا تجزیہ کرکے اُن میں پیدا ہونے والی خرابیوں ، فساد پیدا کرنے کی وجوہات واقدار، ترقی اور عروج کے لوازمات اور تقاضوں کو تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ اُن جماعتوں ، پارٹیوں ، گروہوں کا قرآن حکیم تجزیہ کرتا ہے، جو انسانیت دشمنی اور فساد کا کردار ادا کرتے ہیں اور انعام یافتہ جماعتوں کا تذکرہ بھی کرتا ہے جنھوں نے انسانیت میں سلامتی، امن، دنیا اور آخرت میں ترقی اور کامیابی کی راہیں متعین کی ہیں ۔یہ اس لیے تاکہ انسان‘ پوری انسانی تاریخ کا مطالعہ کرکے فسادی جماعتوں سے بچے، اور انعام یافتہ جماعتوں سے وابستہ ہو، جنھوں نے دنیا میں امن و سلامتی کا نظام قائم کیا ہے اور اپنی آخرت بھی سنواری ہے۔

خطبے میں تلات کی گئی آیتِ قرآنی ’’یہود کہتے ہیں : اللہ کا ہاتھ بند ہو گیا ہے‘‘ (-5 المائدہ: 64) میں قرآن حکیم نے غضبِ الٰہی اور لعنت کی مستحق جماعت یہودیوں کا خاص طور پر تذکرہ کیا ہے۔ اور جو اُن کے نقشِ قدم پر چلیں - عیسائی ہوں یا مسلمان - کا اس ضمن میں تذکرہ کیا گیا ہے کہ جو بھی ان کے رویے اپنائے گا، وہ بھی لعنت والی جماعت میں شامل ہوگیا۔ یہودیت‘ اولادِ یعقوبؑ (بنی اسرائیل) کی وہ شاخ ہے جو تورات کے احکاماتِ الٰہی کو مسخ کرنے کی بدولت غضبِ الٰہی کی مستحق بنی۔

اللہ تعالیٰ نے ان بنی اسرائیل کو بہت سے انعامات سے نوازا تھا۔ کسی قوم کی ترقی کے لیے اعلیٰ علم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اعلیٰ علم کے لیے اعلیٰ عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ عقل اوسط یا پست درجے کی ہو تو وہاں اعلیٰ علم نہیں آتا۔ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد دنیا کے لوگوں میں بہت زیادہ عقل مند تھی۔ اس عقل مند جماعت کو صحفِ ابراہیمؑ سے لے کر تورات، زبور، انجیل تک اعلیٰ ترین علم دیا گیا۔ یہ ایک بہت بڑی نعمت تھی۔

دوسری نعمت یہ دی کہ ان کے اندر حکمران بنائے، جو ان ہی کی قوم میں سے تھے۔ کسی قوم کے لیے اپنا حقِ حکمرانی استعمال کرنا بہت بڑا اِعزاز ہے۔ قرآن نے ان سے کہا کہ: ’’تمھیں ایسی نعمتیں دی ہیں کہ جو تم سے پہلے کسی کو نہیں دی تھیں ‘‘۔ کسی قوم کی سیاسی طاقت کا وجود میں آجانا، اپنی حکومتی رِٹ کا قائم ہوجانا، اپنے فیصلے خود کرنا، اور علم و شعور کے اندر اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل ہونا، یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ انھیں وہ نعمتیں دی گئی ہیں ، جو اُن سے پہلے دنیا میں کسی کو نہیں دی گئیں ، تاکہ وہ اپنی عقلی صلاحیتوں اور علمی استعداد کے ذریعے سے اپنی قوم کے تمام لوگوں کے مسائل حل کریں ، انھیں ایک کنبے کی طرح پالیں ، کمزوروں کو بھی ترقی دیں ، ان میں نظم و نسق قائم کریں ۔ ان کے حقوق کا لحاظ کریں ، لیکن انھوں نے ان نعمتوں کی قدر کرنے کے بجائے زمین میں فساد مچایا‘‘۔

جہاد کا حقیقی تصور اور اس کی غرض و غایت؛ الحرب اور الغزوہ میں فرق

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’اجنبی قومیں جب کسی سوسائٹی پر مسلط ہوتی ہیں ، غیرقومی بادشاہ کسی قوم پر مسلط ہوتے ہیں تو وہ اُس سوسائٹی میں فساد مچاتے ہیں ، اُن کے عزت والے لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں ، اُن کے عہدے اور منصب کو ذلیل و رُسوا کردیتے ہیں ۔ یہ ’’المُلوک الأجانِب‘‘ (اجنبی حکمران) ہوتے ہیں ۔ آیتِ قرآنی کے مطابق ان کا کام: ﴿طُغْيَانًا﴾   مغلوب قوم کے بنیادی حقوق کا انکار کرنا، اور سرکشی کرکے قوموں پر آمریت مسلط کرنا، ان کے حقوق غصب کرنا، ان کو انسان نہ سمجھنا ہوتا ہے۔ ﴿وَكُفْرًا ﴾   : اللہ کی حقانیت کو تسلیم نہ کرنا اس کے نتیجے میں ان کے اندر اگلی خرابی یہ پیدا ہوتی ہے کہ ’’العداوۃ‘‘: نفسانی عداوت اور بغض پید اہوتا ہے۔ تیسری خرابی یہ ہوتی ہے کہ ﴿ أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ﴾ :جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں ۔ قوموں کے درمیان لڑائیاں پیدا کرتے ہیں ۔ ڈیوائڈ اینڈ رول کی سیاست کرتے ہیں ۔ یہ یہودیوں کی خصلتیں بیان کی جا رہی ہیں ۔ یہودی جنگ اور فساد کی آگ بھڑکا کر خود جلتے ہیں ، جس کے نتیجے میں اُن پر اجنبی بادشاہ حکومت قائم کرتے رہے ہیں ، وہ آکر مزید فساد مچاتے ہیں ۔ جب کہ اللہ تعالیٰ اور انبیا علیہم السلام اس آگ کو بجھاتے ہیں ۔ حرب اور جنگ کی آگ بھڑکانے کی خصلت مسلمان اپنائیں یا عیسائی، کوئی بھی ہو، لعنت کا مستحق ہوگا۔

یہاں یہ بات سمجھنے کی بڑی ضروری ہے کہ ’’حَرْب‘‘ اور ’’سَلْم‘‘ میں کیا فرق ہے۔ آج المیہ یہ ہے کہ مسلمان حرب یا جنگ کو ’’جہاد‘‘ کہنے لگ گئے۔ حال آں کہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ’’الحَرْب‘‘ کا لفظ قرآن حکیم میں چھ جگہ پر استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ یہ منفی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ الحرب کا ترجمہ ’’جنگ‘‘ ہے، یہ شیطانی کام ہے۔ اسلامی کام نہیں ہے۔ ’’الحرب‘‘ کی ضد ’’السلم‘‘ ہے۔ السلم کا لفظ قرآن نے سلامتی کے لیے استعمال کیا ہے، اسی سے اسلام ہے، اسی سے مسلم ہے، اسی سے وہ حکم ہے جو اللہ نے فرمایا کہ اگر مکے والے ’’حَرْب‘‘ چھوڑ کر ’’سَلْم‘‘ اور سلامتی کی طرف آئیں تو اے محمد ﷺ آپ بھی نرمی دکھائیں ، جھک جائیں ۔ اللہ پر توکل کریں ۔ (-8 انفال: 61)

یاد رکھیں ! دین میں ’’حرب‘‘ اور جنگ نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں دین میں ’’الجہاد‘‘ ہے، جو قیامت تک جاری رہے گا۔ (الحدیث) جہاد میں اور جنگ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ الحرب‘ عداوت، بغض، سرکشی اور طغیان کی اَساس پر ہوتی ہے۔ مال دولت لوٹنے، قوموں پر قبضہ کرنے، حقائق کا انکار کرنے اور انسانی حقوق سلب کرنے کے لیے جو لڑائی کی جاتی ہے، اُسے حرب کہتے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں الجہاد یا الغزو کا لفظ استعمال کیا ہے۔ حضور ﷺ نے دشمنوں کے خلاف جتنی بھی لڑائیاں لڑی ہیں ، وہ الجہاد ہیں ، غزوات ہیں ۔ ’’الغزو‘‘ کا معنی ہے کہ انسانی حقوق پامال کرنے والے انسان دشمنوں کے خلاف خروج کرنا۔ یہ صورتاً جنگ ہے، لیکن حقیقت میں انسانی سلامتی کے راہ کی رُکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ جہاد یا الغزو کے ذریعے انسانیت کے کینسر زدہ حصے کو کاٹ کر پھینک دینا ہوتا ہے۔ اسی لیے اس ’’جہاد‘‘ کو ’’عداوتِ مقدّسہ‘‘ کہا گیا ہے۔

دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی بھڑکائی گئی جنگوں پر ایک طائرانہ نظر

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’عصر حاضر میں دنیا میں عام طور پر جنگیں عداوت و بغض کی بنیاد پر ہوئیں ۔ اس کا سلسلہ آج سے سو سال پہلے جنگِ عظیم اوّل سے شروع ہوا اور آج تک جتنی بھی جنگیں دنیا میں لڑی گئیں ، وہ ’’الحرب‘‘ ہیں ، ’’الجہاد‘‘ نہیں ہیں ۔ کیوں کہ یہ جنگیں سرمایہ داروں اور طاغوتیوں نے اپنے مفادات اور لوٹ مار کے لیے لڑیں ۔ جنگِ عظیم اوّل اور دوم میں سات بادشاہتیں تباہ ہوئیں ، کروڑوں انسان قتل ہوئے، ریاستیں تباہ و برباد ہوئیں ، یورپ پورا اُجڑ گیا، لندن پیرس تباہ ہوگئے، برلن کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ کیوں کہ یہ جنگیں باہمی عداوت اور بغض پر مبنی جنگیں تھیں ۔ ایک ذرا سا کسی علاقے کے حکمران شہزادے کے ساتھ ایک حرکت ہوئی ہے اور اُس حرکت پر وہ جنگ چھڑی اور دو کروڑ انسانوں کے قتل پر منتج ہوئی۔ اس کا جہاد سے کیا تعلق ہے؟

مسلمانوں کے غلبے کے زمانے میں کبھی ایسی کوئی جنگ ہوئی؟ جہاد تو وہ ہوتا ہے جو سلامتی کے لیے ہو۔ جب سے یہ مغضوب علیہم یہودی خصلت دجالی حکومتیں پوری دنیا پر مسلط ہوئی ہیں ، انھوں نے ’’حرب‘‘ کو زندہ کردیا ہے۔ امریکی اسلحہ سازوں نے جنگِ عظیم دوم میں ہٹلر کو بھی اسلحہ سپلائی کیا، اور اتحادی قوتوں برطانیہ، فرانس اور رُوس کو بھی اسلحہ سپلائی کیا۔ دونوں طرف اسلحہ بھیج کر جنگ لڑوائی۔ کروڑوں انسان قتل کرائے۔

سعودیہ عرب پر قبضے کی جنگ کس نے لڑوائی؟ کون لوگ تھے جنھوں نے ترکوں کے خلاف عربوں کو بغاوت پر اُکسایا؟ وہ کون لوگ تھے جنھوں نے گیارہ دسمبر 1917ء کو جرنل ایلن بائی کا بیت المقدس پر قبضہ کروایا۔ یہی فلسطینی عرب تھے۔ ان کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہ جھنڈے لے لے کر آگے جا رہے تھے اور ترکوں کو وہاں سے نکال کر برطانیہ کو مسلط کر رہے تھے۔ انھوں نے جنگ کی آگ بھڑکائی۔ اس کو ’’جہاد‘‘ کیسے کہا جاسکتا ہے؟ انھیں آلۂ کار عربوں نے حجاز میں تباہی مچائی، پورا حجاز ریلوے تباہ کردی، حرمِ مکی اور حرمِ مدنی کے اندر خون بہایا، انسانیت کی تباہی کے لیے کردار ادا کیا، یہ ہے قرآن حکیم کی اصطلاح میں ’’آگ بھڑکانا‘‘۔ انھوں نے ہر جگہ جنگ کی آگ بھڑکائی اور دجل سے اس کو ’’جہاد‘‘ کا نام دیا۔ کہیں غزوۂ ہند کے نام پر، کہیں جہاد کے نام پر، کہیں کسی اَور عنوان سے جنگیں بھڑکانے کا ہمیشہ سے سامراج کا کام رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ اور اس کی جماعت کا کام بھڑکی ہوئی جنگ کو بجھانا ہے، آگ لگانا نہیں ۔ جب مسلمان‘ یہودی خصلت اختیار کرگئے، وہی حرکت اُن میں پیدا ہوگئی۔ حضور ﷺ نے صحابہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ ’’تم بھی ضرور بالضرور اپنے سے پہلے یہودیوں اور عیسائیوں کی اتباع کرو گے‘‘۔ تم بھی جنگ کی آگ بھڑکاؤ گے۔ اندازہ لگائیے کہ الحرب یا جنگ دینِ اسلام میں نہیں ہے اور پچھلے سو سال سے اسلام کے نام پر بنائی گئی پارٹیاں ہر جگہ سامراج کی جنگ کو ’’جہاد‘‘ بنا کر پیش کرتی رہی ہیں ‘‘۔

غزہ میں جنگ بندی کی حقیقت اور ذمہ دار طبقوں کا گھناؤنا کردار

حضرت آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے مزید فرمایا:

’’آج غزہ اور تل ابیب دونوں جگہ بڑی خوشیاں منائی جا رہی ہیں کہ جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا۔ ابھی تو صرف معاہدہ ہوا ہے۔ وہ جو جنگ بھڑکانے والی پارٹیاں ، گروہ اور مذہبی رہنما تھے، وہ بتائیں کہ پندرہ مہینوں کی اس جنگ سے نتیجہ کیا حاصل ہوا؟ پچاس ہزار فلسطینی شہید ہوئے، یہ اُن کے بتلائے ہوئے اعداد و شمار ہیں ، ورنہ جو لاکھوں افراد بلڈنگوں کے نیچے دب کر مر گئے، اُن کا کوئی حساب کتاب نہیں ۔ لاکھوں انسان بے گھر ہوگئے، زخمی ہوگئے، پورا غزہ اُجاڑ دیا۔ اُس کی حکومت کا جو سٹرکچر، جو چھوٹے موٹے ادارے موجود تھے، وہ ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہوگئے۔ اب اس پر خوشیاں منا رہے ہیں کہ جی اسرائیل نے وعدہ کیا ہے کہ وہ غزہ چھوڑ دے گا۔ غزہ کن کے سپرد کرکے جائے گا؟ انھیں کے، جن کی پوری قیادت اُس نے اُڑا کر رکھ دی۔ اس جنگ کے نتیجے میں شام پر قبضہ ہوا، لبنان میں تباہی آئی۔ اس جنگ کے نتیجے میں فلسطین میں تباہی آئی۔ یہ الحرب تھی، آگ بھڑکائی گئی تھی، جس نے پورے فلسطین کو اور مشرقِ وسطیٰ کو بھسم کردیا۔

جب اسرائیل کے غزہ پر قبضے کے مقاصد پورے ہوگئے، تو اب کہتے ہیں جی کہ صلح کرلو۔ اب اُن کے خریدے ہوئے مسلمان حکمران معاہدے کرا رہے ہیں ۔ امریکی صدر ٹرمپ کہتا ہے کہ 20؍ جنوری تک تم نے معاہدہ نہ کیا تو مشرقِ وسطیٰ کو جہنم بنا دوں گا۔ جہنم تو بنا دیا اُس نے۔ غزہ کو تباہ و برباد تو کردیا۔ اب جنگ بندی پر اگر خوشیاں منائی جا رہی ہیں تو کیا 7؍ اکتوبر 2023ء سے پہلے جنگ بندی نہیں تھی؟ اُس جنگ بندی میں تمھارا سٹرکچر تو موجود تھا۔ اب تو کچھ باقی نہیں رہا۔ کس بات کی خوشیاں منا رہے ہیں ؟

’’الحرب‘‘ اسلامی ٹائٹل سے ہو، ’’جہاد‘‘ کے ٹائٹل سے ہو یا کسی بھی اَور عنوان سے ہو، یہ عداوت اور بغض پر مبنی ہوتی ہے۔ اُس خطے کے زیرِ زمین وسائل پر قبضہ کرنا ہوتا ہے۔ اس پندرہ ماہ کی جنگ میں غزہ کے ساحل کے ساتھ جتنے گیس کے بڑے بڑے ذخائر موجود تھے، جب سے روس نے یورپ کی گیس بند کردی تو برطانوی اور امریکی سامراج نے مل کر ان ذخائر سے گیس نکالنے کا مکمل نظام بنا لیا۔ اب جنگ بند ہوگئی۔ کیوں کہ اپنے کام کرلیے، وسائل گیس، تیل اور زمین پر قبضہ کرلیا گیا ہے۔

قرآن واضح بیان کر رہا ہے کہ جہاں بھی جنگ کی آگ بھڑکائی جائے، وہاں اُس کے پیچھے کوئی شیطان ہوگا، کوئی طاغوتی قوت ہوگی۔ اس کو اسلامی جہاد کہنا، غزوہ کہنا، بالکل غلط ہے۔ یہ جنگ کرنے کے لیے اسلام کا نام استعمال کرنا ہے۔ اسی لیے قرآن نے آگے کہا ہے: ’’ویسعون فی الارض فساداً‘‘ یہ جو جنگ بھڑکاتے ہیں ، اس لیے کہ زمین میں فساد پھیلایا جائے۔ فلسطین پر قبضہ فساد ہی تو ہے۔ یاد رہے کہ جہاد کا فیصلہ دینِ اسلام میں حکمران کرتے ہیں ، پارٹیاں نہیں کرتیں ۔ قوم کا منتخب کردہ حکمران قوم کی ہمدردی رکھتا ہے، اسی لیے ایسی حکومت اور ریاست جہاد کا اعلان کرتی ہے۔ دین میں پرائیویٹ جہاد نہیں ہوتا۔ کسی پارٹی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ جہاد کا اعلان کرے‘‘۔

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...