اَخلاقِ اربعہ کے حصول کا طریقہ

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
نومبر 13, 2020 - افکار شاہ ولی اللہؒ
اَخلاقِ اربعہ کے حصول کا طریقہ

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’جاننا چاہیے کہ ان چاروں اَخلاق (طہارت، اِخبات، سماحت اور عدالت) کو حاصل کرنے کی دو تدبیریں ہیں:         

1۔    تدبیرِ علمی            2۔     تدبیرِ عملی 
تدبیرِ علمی : اس کی اس لیے ضرورت ہے کہ انسان کی طبیعت اُس کی علمی اور ذہنی قوتوں کے تابع ہوتی ہے۔ اس لیے تم نے دیکھا ہوگا کہ جب انسان میں ذہنی طور پر کوئی خوف یا شرم کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو اس کی جنسی شہوت اور جوش ختم ہوجاتا ہے۔ پس جب (ان چاروں اَخلاق سے مرکب) فطرتِ انسانی سے اُسے علمی مناسبت پیدا ہوجاتی ہے تو یہ علم اُسے اعلیٰ اَخلاق کی طرف کھینچ کر لے جانے کا سبب بن جاتا ہے۔ 
تدبیرِ علمی کی حقیقت یہ ہے کہ جب انسان یہ اعتقاد رکھے کہ اس کا ایک ربّ ہے جو: 
(1)     تمام بشری پستیوں سے بہت پاک ہے۔

(2) آسمان و زمین میں ایک ذرے کے برابر کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے۔

(3) تین آدمی کوئی سرگوشی اور مشورہ کریں تو چوتھا اُن کا خدا ہوتا ہے اور پانچ آدمی ہوں تو چھٹا اُن کا خدا ہوتا ہے۔

(4) وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو ارادہ کرتا ہے وہ فیصلہ جاری کرتا ہے۔ اس کے فیصلوں کو اور اُس کے حکم کو کوئی روکنے والا نہیں۔

(5) وہی ہمارے اصل وجود اور اُس کے تابع تمام جسمانی اور روحانی نعمتوں کو عنایت کرنے والا ہے۔

(6) وہی انسان کے اعمال کی جزا دینے والا ہے، اگر انسان اچھے کام کرے تو اچھا نتیجہ اور اگر بُرے کام کرے تو بُرا نتیجہ ہے۔ چناںچہ اللہ تعالیٰ کا قول (حدیث ِقدسی) ہے کہ: ’’میرا بندہ گناہ کرتا ہے۔ پس اگر اُسے یہ علم ہے کہ اُس کا ایک ربّ ہے جو گناہوں کو معاف کردیتا ہے اور گناہوں پر پکڑتا ہے تو (اس علم کی بنیاد پر) میں اپنے بندے کو معاف کردیتا ہوں‘‘۔ (رواہ مسلم: 7617) 
خلاصہ یہ ہے کہ بندے کو: 
(1)     ایسا پختہ اعتقاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کی ہیبت و جلال اور اُس کی انتہا درجے کی عظمت اس میں پیدا ہو۔ اُس کے دل میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی کسی غیر کا رُعب اور اُس کے سامنے جھکنے کی حالت باقی نہ رہے۔ 
(2)     اسی طرح وہ یہ اعتقاد بھی رکھے کہ انسان کا کمال یہ ہے کہ: 
(الف) وہ اپنے ربّ کی طرف متوجہ رہے اور اُسی کی عبادت کرے۔ 
(ب)    یہ کہ انسان کے حالات و کیفیات میں سب سے بہترین حالت ملائکہ کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے یا اُن کے قریب ہونے کی ہو۔ 
(ج) یہ چاروں اَخلاق اُس کو اپنے ربّ تعالیٰ کی طرف قریب کرنے والے ہیں۔ 
(د) یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان اَخلاق کی وجہ سے اُن لوگوں سے راضی ہوتا ہے۔ 
(ہ) یہ کہ بندے پر اللہ کا یہ حق ہے، اسے پورا کرنا اس کے لیے ضروری ہے۔ 
خلاصہ یہ ہے کہ وہ یہ بات علمی طور پر اس طرح جان لے اور اس کی ضد کا کوئی احتمال بھی اس کے ذہن میں باقی نہ رہے کہ اُس کی کامیابی انھی اَخلاق حاصل کرنے میں ہے۔ اور اس کی بدبختی ان اَخلاق کو چھوڑنے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ علمی تدبیر ایسے کوڑے کی مانند ہو، جو انسان کی بہیمیت اور حیوانیت پر برسے تو اُسے بہت زیادہ تنبیہ حاصل ہو اور وہ اپنے بہیمی تقاضوں کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دے۔ 
اس سلسلے میں انبیا علیہم السلام کے طریقۂ کار میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ سب سے عمدہ ترین طریقہ وہ ہے، جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نازل کیا کہ انھوں نے اللہ کی پُرعظمت نشانیوں اور نعمتوں سے لوگوں کو تذکیر اور نصیحت کی۔ اللہ کی بلند صفات بیان کیں اور اُس کی آفاقی اور روحانی نعمتوں کا تذکرہ کیا۔ یہاں تک کہ انسانی روح کو صحت مند بنانے کے لیے اس ’’علم التّذکیر بآلاء اللّٰہ‘‘ میں مزید کسی اضافے کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ بات اس قدر تحقیقی طور پر ثابت ہوگئی کہ انسان اُسی ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے اپنی لذتوں کو چھوڑیں اور اُس کے ذکر کو باقی ہر چیز پر ترجیح دیں۔ اُس ذاتِ باری تعالیٰ سے شدید محبت کریں اور انتہا درجے کی اپنی جدوجہد کرکے صرف اُسی ہی کی عبادت کریں۔ 
اللہ تبارک و تعالیٰ نے (حضرت ابراہیم ؑکے بیان کردہ اس علم التّذکیر بآلاء اللّٰہ) کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں ’’علم التّذکیر بأیّام اللّٰہ‘‘ شامل کردیا۔ اس علم میں اللہ تعالیٰ نے اُن انعامات کا بیان کیا ہے، جو مطیع اور فرماں بردار لوگوں کے لیے ہے۔ اس سزا کا بیان ہے، جو دنیامیں نافرمان لوگوں کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں اور مصیبتوں کو لوگوں میں بدلتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اُن کے دلوں میں گناہوں کا خوف پیدا ہوجائے اور عبادات کی طرف شدید رغبت پیدا ہوجائے۔ 
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دونوں علوم کے ساتھ ہمارے نبی اکرمؐ کے لیے دو باتوں کا مزید اضافہ کیا: 
(1)     علم الموت و ما بعدہٗ یعنی قبر اور حشر وغیرہ میں پیش آنے والے واقعات بیان کرکے لوگوں کو (عذابِ الٰہی سے) ڈرایا اور (انعاماتِ الٰہی کی) خوش خبری دی۔ 
(2)     علم البِرّ و الإثم یعنی نیکی اور بدی کا علم اور اُس کے خواص بیان کیے۔ 
ان تینوں علوم سے متعلق اُمور کا صرف علمی طور پر جان لینا کافی نہیں ہے، بلکہ ضروری ہے کہ ان علمی باتوں کا باربار بیان کیا جائے اور ہر وقت ان کو ملاحظہ کیا جائے اور انھیں اپنی نگاہوں کے سامنے ہر وقت رکھا جائے، یہاں تک کہ انسان کی تمام علمی قوتیں ان امور سے بھر جائیں اور انسانی جسم اور اس کے اَعضا ان کے فرماں بردار بن جائیں۔ 
یہ تینوں علوم (1۔ علم التّذکیر بآلاء اللّٰہ 2۔ علم التّذکیر بأیّام اللّٰہ 3۔ علم التّذکیر بالموت و ما بعدہٗ) دیگر دو علوم یعنی (1) ایک واجب اور حرام پر مشتمل ’’علم الأحکام‘‘ اور (2) دوسرا کافروں کے شکوک و شبہات دور کرنا یعنی ’’علم مخاصمہ‘‘، یہ کل پانچ قرآن عظیم کے عمدہ ترین علوم ہیں‘‘۔ 
(باب طریق اکتساب ہذہ الخصال و تکمیل ناقصہا و رد فاعلہا) 

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...