اَخلاقِ اربعہ کے حصول کا عملی طریقۂ کار  (2)

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
دسمبر 12, 2020 - افکار شاہ ولی اللہؒ
اَخلاقِ اربعہ کے حصول کا عملی طریقۂ کار  (2)

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’جہاں تک (اَخلاقِ اربعہ کے حصول کی) عملی تدبیر کا تعلق ہے تو اس بارے میں عمدہ ترین بات یہ ہے کہ انسان ایسے افعال، اعمال اور چیزیں اختیار کرے کہ جن سے انسانی نفس میں مطلوبہ خُلق پیدا ہوجائے، جو اُس خُلق پر متنبہ کریں، اس پر برانگیختہ کریں اور اُبھاریں۔ وہ ایسے اعمال و افعال اور اشیا ہوں کہ اُس خُلق اور اُن کے درمیان عادتاً لازم و ملزوم کا تعلق ہو، یا یہ کہ جبلی مناسبت کے طور پر ایسے اعمال و افعال کرنے سے اُس خُلق کو حاصل کرنے کا غالب گمان ہو۔ (اس کی چند مثالیں درجِ ذیل ہیں:) 
(1)     مثلاً انسان جب اپنے نفس میں غصہ اور غضب پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور غضب کی حالت کو اپنے اوپر طاری کرنا چاہتا ہے تو جس پر غصہ اُتارنا ہے، اُس کے منہ سے نکلی ہوئی کسی گالی کو یاد کرتا ہے اور انسان اُس خیال کے آنے پر اُسے پیش آنے والی غیرت اور شرم کو بھی ساتھ ملا لیتا ہے تو اُس پر غیظ و غضب طاری ہوجاتا ہے۔ 
(2)    اسی طرح مثلاً میت پر رونے والی عورت جب غم سے نڈھال ہو کر رونا چاہتی ہے تو اپنے دل میں میت کی عمدہ باتوں کو یاد کرتی اور اُس کا خیال ذہن میں باندھتی ہے۔ اس موقع پر وہ میت کے بارے میں اپنے خیالات کے گھوڑے دوڑاتی ہے تو اُس پر رونے کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ 
(3)    ایسے ہی وہ آدمی جو اپنی بیوی سے جنسی تعلق قائم کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کے ساتھ اس سے متعلق جنسی جذبات اور حرکات و سکنات کا اظہار کرتا ہے۔ 
اس حوالے سے بہت ساری ایسی مثالیں اور نظائر ہیں کہ جو ایسے آدمی پر مخفی نہیں ہیں، جو اس بات کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا چاہتا ہے۔ 
بالکل اسی طرح ان چاروں اَخلاق (طہارت، اخبات، سماحت، عدالت) میں سے ہر ایک کو حاصل کرنے کے بھی اسباب اور دواعی ہیں۔ اس سلسلے میں اَخلاقِ اربعہ سے متعلق اُمور کی پہچان میں ذوقِ سلیم رکھنے والے لوگوں پر اعتماد کرنا چاہیے۔ 
حدث (عدمِ طہارت) کے اسباب
حدث کے اسباب یہ ہیں: 
دل کا پست خیالات اور سفلی حالت سے بھرا ہوا ہونا، مثلاً: 
(1)     شہوت پورا کرنے کے لیے عورتوں سے جماع اور مباشرت کی حالت یاد رکھنا۔ 
(2)     خفیہ طور پر دل میں حق تبارک و تعالیٰ اور دینِ حق کی مخالفت کا موجود ہونا۔ 
(3)     اس طرح ملائِ اعلیٰ کی لعنت کا اُس انسان کا احاطہ کیے رکھنا۔ 
(4)     معدے میں تینوں فضلات (پیشاب، پاخانہ اور ریح وغیرہ) کے تقاضے کا ہونا۔ 
(5)    بدن پر میل کچیل، بغلوں کی بدبو، ناک میں فضلات کا جمع ہونا۔ 
(6)    بغلوں اور زیرناف کے بالوں کا بڑھا ہوا ہونا۔ 
(7)    کپڑوں اور بدن کا نجاستوں سے لتھڑا ہوا ہونا۔ 
(8)    انسانی حواس (آنکھ، کان وغیرہ) کا سفلی حالات سے بھرا ہوا ہونا، جیسا کہ گندی چیزوں کو دیکھنا، شرم گاہ کی طرف نظر کرنا، جانوروں کے جنسی ملاپ کو دیکھنا، مرد اور عورت کے جنسی تعلق پر گہری نظر رکھنا۔ 
(9)    فرشتوں اور نیک لوگوں پر لعن طعن کرنا۔ 
(10)لوگوں کو ایذا اور تکلیف پہنچانے کے لیے ہمیشہ سرگرمِ عمل رہنا۔ 
1۔ طہارت کے اسباب
(1)    حدث کے اسباب کی تمام بُری باتوں کو ختم کرنا اور اُن کا ازالہ کرنا۔ 
(2)    ان بُری عادتوں کی مخالفت پیدا کرنے کے لیے جدوجہد کرنا۔ 
(3)    اچھی عادات میں ایسی پختگی کو استعمال میں لانا کہ جس سے انتہائی درجے کی صفائی ستھرائی حاصل ہو، مثلاً: 
    (i)غسل کرنا، (ii) وضو کرنا، (iii) اچھا اور عمدہ لباس پہننا، (iv) خوشبو استعمال کرنا۔ 
    اس لیے کہ ان اشیا کا استعمال انسانی نفس میں طہارت کی صفت پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ 
2۔ اِخبات کے اسباب
(1)    اپنے نفس کا ایسا مواخذہ کرنا کہ جس کے ذریعے سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے تعظیم کی اعلیٰ ترین حالت پیدا ہو۔ 
    (i)    اللہ کے سامنے سر جھکا کر قیام کرنا اور سجدہ کرنا۔ 
    (ii)    اس حالت میں ایسے الفاظ زبان سے ادا کرنا، جو اللہ کی مناجات پر دلالت 
        کریں اور اُس کے سامنے عجز و انکساری پیدا کرنے کا باعث بنیں۔ 
(2)    اپنی تمام حاجات کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے دربار میں پیش کرنا۔ 
یہ تمام اُمور انسانی نفس میں خشوع و خضوع اور اخبات کی صفت پر بہت قوت سے متنبہ کرتے ہیں۔ 
3۔ سماحت کے اسباب
(1)    سخاوت کے ساتھ مال خرچ کرنے کی عادت ڈالنا۔ 
(2)    اپنے پر ظلم اور زیادتی کرنے والے کو معاف کردینا۔ 
(3)    پیش آنے والی مشکلات پر صبر کرنا اور اُس پر اپنے نفس کا مواخذہ کرنا وغیرہ۔ 
4۔ عدالت کے اسباب
(1)    عدل و انصاف کے قیام کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ سنت ِراشدہ کی اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ حفاظت کرنا (اور اس کے مطابق عدل و انصاف کا نظام قائم کرنا)۔ و اللہ اعلم 
(باب طریق اکتساب ہذہ الخصال و تکمیل ناقصہا و رد فاعلہا

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

سلسلہ عاليہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین پنجم

حضرت اقدس مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ

سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ اور پانچویں مسند نشین حضرت اقدس مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ آپ کے والد گرامی راؤ عبدالرؤف خان(مجاز حضرت اقدس رائے پوری چہارم)ہیں۔ آپ کی پیدائش02 /جمادی الاول1381ھ/12 /اکتوبر1961ء بروز جمعرات کو ہوئی۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ نے آپ کا نام ” عبدالخالق"رکھا۔9سال کی عمر میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ نے آپ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی۔ اس سے آپ کی ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حفظ قرآن حکیم حضرت کے حکم سے ہی قائم شدہ جامعہ تعلیم القرآن ہارون آباد میں مکمل کیا اور درس نظامی کے ابتدائی درجات بھی اسی مدرسے میں جید اسا تذہ سے پڑھے۔ پھر جامعہ علوم اسلامیہ کراچی میں حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی(شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنی ، مولانا محمد ادریس میرٹھی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی)، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی(شاگرد مولانا عبید اللہ سندھی و مولانا سید حسین احمد مدنی)وغیرہ اساتذہ سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کی ۔ پھر دو سال انھی کی زیرنگرانی تخصص فی الفقہ الاسلامی کیا اور دار الافتار میں کام کیا۔

1981ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری سے با قاعدہ بیعتِ سلوک و احسان کی اور آپ کے حکم سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری سے ذکر کا طریقہ اور سلسلہ عالیہ کے معمولات سیکھے۔ اور پھر12سال تک حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی معیت میں بہت سے اسفار کیے اور ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔1992ء میں ان کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کی صحبت میں رہے اور مسلسل بیس سال تک ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہے اور ظاہری اور باطنی تربیت کی تکمیل کی۔ رمضان المبارک1419ھ/ 1999ء میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائےپور میں آپ کو اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

15سال تک آپ جامعہ تعلیم القرآن ریلوے مسجد ہارون آباد میں تفسیر، حدیث ، فقہ اور علوم ولی اللہی کی کتابوں کی تعلیم و تدریس کرتے رہے۔2001ء میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے قیام کے بعد سے حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے ایما پر لاہور میں مستقل قیام کیا۔ اس وقت سے اب تک یہاں پر دورۂ حدیث شریف کی تدریس اور علوم ولی اللہی کے فروغ کے ساتھ ماہنامہ رحیمیہ اور سہ ماہی مجلہ"شعور و آگہی" کی ادارت کے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے اپنی زندگی کے آخری چار سالوں میں آپ کو اپنا امام نماز مقرر کیا۔ آپ نے اُن کے حکم اور تائیدی کلمات کے ساتھ سلسلہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کا طریقہ تربیت و معمولات بھی مرتب کیا۔ آپ بھی شریعت، طریقت اور سیاست کی جامع شخصیت ہیں۔ آپ حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری کے جانشین ہیں اور سلسلے کے تمام خلفا اور متوسلین آپ کی رہنمائی میں کام کر رہے ہیں۔ مزید...