یورپ میں آزاد اُمَوی ریاست کے بانی
جب مشرق میں بنواُمیہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور بنوعباس برسرِ اقتدار آئے تو بنواُمیہ کے ایک نامور فرزند عبدالرحمن بن معاویہ بن ہشام نے اَندلُس میں مستقل حکومت قائم کی۔ اس سے پہلے اَندلُس کے اکثر علاقے طارق بن زیادہ اور موسیٰ بن نصیر کے ہاتھوں فتح ہوچکے تھے۔ بنوعباس حکمران ہوئے تو انھوں نے بنواُمیہ کے چنیدہ افراد کی پکڑدھکڑ شروع کردی۔ اس دوران عبدالرحمن الداخل چھپتے چھپاتے دریائے دجلہ کو تیر کر پار کرتے ہوئے پہلے فلسطین پہنچے او رپھر وہاں سے افریقا کا رُخ کیا۔ افریقا میں خلافتِ بنواُمیہ کے زمانے کے گورنر عبدالرحمن بن حبیب الفہری تھے، جنھوں نے عبدالرحمن الداخل کو اپنے ہاں پناہ دی۔
ادھر اُموی خلافت کے سقوط سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عبدالرحمن بن حبیب الفہری نے افریقا پر اپنی حکمرانی کو خودمختار بنا لیا۔ عبدالرحمن الداخل کو اپنی حکمرانی کے لیے خطرہ سمجھنے لگا۔ الداخل کو بھی اس کا احساس ہوگیا تو انھوں نے اَندلُس میں داخل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ پہلے اس نے اپنے ایک اہل کار کو حالات کا جائزہ لینے کے لیے اَندلُس بھیجا، جس کا نام بدر تھا۔ اس نے حالات کے سازگار ہونے کی اطلاع دی تو عبدالرحمن ربیع الثانی۱۳۸ھ / 755ء میں ابنائے جبل الطارق کو عبور کرتے ہوئے اَندلُس میں داخل ہوئے۔ (البدایہ و النہایہ، حافظ ابن کثیر، ص: 330)
اَندلُس میں اُموی دور کی شاہی افواج موجود تھیں۔ بربر قوم جو کہ عبدالرحمن کے ننہیال ہوتے ہیں، انھوں نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ عبدالرحمن الداخل نے شاہی افواج میں بھی اپنا اثر و رسوخ پیدا کرلیا،یہاں تک کہ انھوں نے عبدالرحمن الداخل کو اپنا کمانڈر بنا لیا۔ اَندلُس کے مشہو رشہر اشبیلیہ پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اَندلُس کا گورنر یوسف جو عبدالرحمن الفہری کا بیٹا تھا، وہ مقابلے پر آیا تو اس کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔۱۰؍ ذی الحجہ۱۳۸ھ / 756ء کو الداخل نے قرطبہ دارالحکومت بھی فتح کرلیا۔ اس طرح پورا اَندلُس ان کی حکمرانی میں آگیا۔ اس طرح بنواُمیہ کی حکومت یورپ کے اہم ترین ساحلی علاقے اَندلُس پر قائم ہوئی۔ تقریباً 800 سال اَندلُس پر اُمویوں نے حکومت قائم رکھی۔
عبدالرحمن الداخل __ جن کو ’’صقرِ قریش‘‘ (قریش کا باز) کا خطاب دیا گیا،یہ خطاب بھی ان کے سیاسی مخالف عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور نے دیا تھا __ نے اَندلُس پر کامیاب حکمرانی کی۔ ملک کا انتظام نہایت خوبی سے چلایا۔ علم و فن کی سرپرستی کی۔ لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوتے۔ قرطبہ کی مشہور مسجد کی اپنے ذاتی پیسے سے تعمیر کرائی۔۱۷۰ھ / 786ء میں مسجد قرطبہ کی بنیاد رکھی اور تعمیر پر تقریبا 900 ہزار دینار خرچ کیے۔ نمازوں کی امامت خود کرتے، خصوصاً نماز ِجنازہ خود پڑھاتے۔ (جاری ہے۔۔۔)
ٹیگز
مفتی محمد اشرف عاطف
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
خلافتِ بنو عباس؛ نظام و کارنامے
خلافتِ بنو عباس کا زمانہ بھی خلافتِ راشدہ اور خلافتِ بنواُمیہ کی طرح خیر و برکت کا زمانہ تھا۔ ابتدا میں اسلام اور عربی رنگ غالب تھا، لیکن فتنوں کے ظہور اور متوکل علی اللہ کے…
علامہ ابن حزم اَندلُسیؒ
اَندلُس کے مشہور علما میں سے ایک نام ور شخصیت علامہ ابن حزم اَندلُسیؒ کی ہے۔ آپؒ کی شخصیت ہمہ جہت تھی، جو بہ یک وقت محدث بھی ہیں اور مؤرخ بھی، شاعر بھی ہیں اور فقیہ بھی، بہت س…
طارق بن زیاد؛ فاتح اَندلُس (2)
طارق بن زیاد کی قیادت میں جب اسلامی لشکر جبل الطارق پر اُترا تو اس کے آس پاس کے جزیرے اور شہر بآسانی زیرنگیں ہوگئے۔ طارق نے ان شہروں کی فصیلوں اور قلعوں کو درست کرایا۔ وہ…
طارق بن زیاد ؛ فاتح اندلس
طارق بن زیاد خلافت ِبنی اُمیہ کے مسلم جرنیل تھے۔ وادیٔ تافنہ الجزائر میں ۵۰ھ / 670ء میں پیدا ہوئے اور دمشق میں 720ء میں تقریباً پچاس سال کی عمر میں وفات پائی۔ ان کا افریقا ک…