پچھلے دنوں ایک دعائیہ تقریب میں ایک ’’عالمی مبلغ‘‘ نے جھوٹی اور موضوع روایات کا سہارا لے کر خلفائے بنواُمیہ کی کردار کشی کی اور ایسے جھوٹے واقعات ذکر کرکے اَخلاف کو اَسلاف سے بدظن کرنے کی ناکام کوشش کی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ خلفائے بنواُمیہ کا دور تاریخِ اسلام کا سنہری دور ہے۔ خصوصاً عبدالملک بن مروانؒ کا دور اسلامی فتوحات کا دور ہے۔ امن و امان، معاشی خوش حالی اور دین کی سربلندی کا زمانہ ہے، جس میں ’’مؤطا امام مالک‘‘ کو اسلامی دستور ہونے کی حیثیت حاصل رہی۔
عبدالملک بن مروانؒ خود بھی عالم و فاضل، عابد و زاہد اور مدینہ کے مشہور فقہا میں سے تھے۔ بڑے بڑے ائمہ کرام ان کے علمی و عملی کمالات کے معترف ہیں۔ مثلاً امام شعبیؒ جو کہ عظیم محدث، صحاح ستہ کے ثقہ راوی اور کئی صحابہؓ کے شاگرد ہیں، وہ کہتے ہیں کہ: ’’میں نے جس کسی سے گفتگو کی، اپنے آپ کو اس سے برتر پایا، سوائے عبدالملک کے، کہ اس کے ساتھ کبھی حدیث یا شعر پر گفتگو ہوئی تو ا س نے میرے علم میں اضافہ کیا‘‘۔ محدث ابوالزنادؒ کہتے ہیں کہ: ’’سعید بن مسیبؒ، عبدالملک بن مروانؒ، عروہ بن زبیرؒ اور قبیصہ بن زویبؒ فقہائے مدینہ ہیں‘‘۔ عُبادہ بن مثنیٰؒ نے صحابیٔ رسول حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے پوچھا کہ آپ لوگوں کے بعد ہم مسائل کس طرح (کس سے) دریافت کریں؟ تو انھوں نے فرمایا کہ: ’’مروان کے بیٹے فقیہ ہیں، ان سے دریافت کرنا‘‘۔ امام ذہبیؒ کہتے ہیں کہ: ’’عبدالملکؒ نے حضرت عثمانؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت ابوسعید خدریؓ، حضرت اُمِ سلمہؓ، حضرت ابنِ عمرؓ اور حضرت امیرمعاویہؓ سے احادیث سنیں‘‘۔ اور بقول شاہ معین الدین ندویؒ: ’’اگر وہ حکمران نہ ہوتے تو وہ مدینہ کی مسند ِعلم کی زینت ہوتے‘‘۔ علم و فضل میں یکتائے روزگار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک بہادر و کامیاب حکمران بھی تھے۔ اندرونِ ملک بغاوتوں اور شورشوں کو ختم کرکے ملک کو سیاسی لحاظ سے مستحکم کیا۔ فتوحات سے سلطنت کو وسعت بخشی۔ انھیں کے زمانے میں شمالی افریقا میں فتوحات کا آغاز ہوا۔ ترکستان اُموی خلافت کا حصہ بنا۔ رومیوں کو قیساریہ کے مقام پر شکست دے کر بہت سے رومیوں کے علاقے اسلامی حکومت کے زیرِنگیں آئے۔
حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب ایران، شام اور افریقا کے کچھ علاقے فتح ہوئے، لیکن بعض انتظامی دُشواریوں کی وجہ سے دفتری نظام علاقائی زبانوں میں ہوتا تھا۔ ایران اور عراق میں پہلوی زبان رائج تھی۔ شام میں سریانی اور مصر میں قدیم مصری زبان کا رواج تھا تو عبدالملک کے زمانۂ خلافت میں عربی زبان کو دفتری زبان کے طور پر رائج کیا گیا، جس سے قومی وحدت کے تصور کو فروغ ملا۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ اسلامی سِکّوں اور زَرِی کرنسی کا اِجرا بھی ہے، جس سے تجارت میں سہولت ہوئی۔ ملکی معیشت مستحکم ہوئی اور خوش حالی میں اضافہ ہوا۔ خانۂ کعبہ کی ازسرِنو تعمیر کی اور ہر سال کعبہ پر نیا غلاف چڑھانے کی رسم کا آغاز ہوا۔ یہ ریشمی غلاف ہر سال دمشق سے روانہ کیا جاتا تھا۔
مختصر یہ کہ تاریخ کے اوراق ان کے کارناموں سے معمور ہیں، لیکن افترا پرداز لوگ ضعیف ترین، بلکہ موضوع روایات کا حوالہ دے کر تاریخ اسلام کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ بنواُمیہ کے خلفا تو انسانی خدمت اور اپنے علمی و عملی کارناموں کی بدولت دُنیا میں بھی سُرخ رُو ہوئے اور برزخی و اُخروی زندگی میں بھی ان شاء اللہ سُرخ رُو ہوں گے، البتہ ایسے عادل حکمرانوں پر الزام تراشی کرنے والے ہی رُوسیاہ ہوں گے۔
مفتی محمد اشرف عاطف
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد قریش کے چند مشہورِ زمانہ سخی افراد میں سے تھے۔ آپ کی والدہ عاتکہ بنت عامر کنانیہ تھیں، جن کا تعلق معزز قبیلہ بنوفراس …
یورپ میں بنواُمیہ کی فتوحات اور علوم و فنون کی ترقی
تاریخ میں بنواُمیہ کا دورِ حکومت سیاسی اور دینی وحدت کے اعتبار سے سنہری اور فتوحات کا دور تھا۔ اُموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں موسیٰ بن نُصَیرافریقا کے گورنر تھے۔ طارق…
خلافتِ راشدہ کے نظام میں وسیع تر بامعنی مشاورت اور آج کی جمہوریت
وطنِ عزیز کی سیاست اپنے روز ِقیام ہی سے مختلف نعروں سے عبارت رہی ہے، جیساکہ ہم نے گزشتہ ماہ کے شذرات میں یہاں اسلامی نظام کے نمائشی نعروں کے برعکس چند سنجیدہ گزارشات …