4۔ سالانہ پیداوار: پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ مقامی پیداوار کا ایک بہت بڑا حصہ مقامی سطح پر ہی استعمال ہو جاتا ہے، لیکن اس عمل کو مستحکم ہونے کے لیے غربت میں کمی اور عمومی پیداواری صورتِ حال میں بہتری ناگزیر ہے۔ چناں چہ پاکستانیروپوں میں ملکی پیداوار اور اس میں بڑھوتری کی شرح بالترتیب 2005ء میں 65 کھرب اور 9 فی صد سالانہ، 2010ء میں 149کھرب اور 2.6 فی صد سالانہ، 2015ء میں 291 کھرب اور 4.1 فی صد سالانہ اور 2020ء میں 417 کھرب اور منفی 0.4 فی صد سالانہ رہی۔ ان اعدادوشمار سے یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ گزشتہ چند سال پاکستان پر کافی بھاری رہے ہیں، جہاں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، ملکی پیداواری صلاحیت میں کمی واقع ہوئی ہے اور غربت میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ اس گراوٹ کی بڑی وجوہات میں کرونا کی وبا اور عالمی کساد بازاری کے رُجحانات کو بتایا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کی پیداواری صلاحیت اس وبا کی آمد سے پہلے ہی کافی گراوٹ کا شکار رہی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق سال 2021ء کے اختتام پر پاکستانی معیشت 456 کھرب یعنی 300 ارب ڈالر تک بڑھ جائے گی اور اس کی شرح 2.1 فی صد رہے گی۔ یہ بات اہم ہے کہ صنعتی شعبے میں اب تک 9 فی صد کی بڑھوتری ریکارڈ کی جاچکی ہے ۔
5۔آمدن و اخراجات میں توازن: پاکستانی معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ ہی آمدن اور اخراجات میں عدمِ توازن ہے۔ یہی عدمِ توازن دراصل پاکستان پر بے پناہ قرضوں کی وجہ ہے۔ ہمارا سالانہ بجٹ قرضوں پر سود کی ادائیگی، دفاع، ترقیاتی کام اور انتظامیہ کے بڑے بڑے اخراجات پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر سال ان خراجات کو پورا کرنے کے لیے ضروری مالی وسائل میسر نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال بھاری مقدار میں اندرونی اور بیرونی قرض لیے جاتے ہیں۔ چناں چہ گزشتہ بیس سالوں میں اخراجات کچھ اس ترتیب سے آمدن سے زائد رہے اور اس سال کے آخر میں اندرونی و بیرونی قرضوں کی کیا صورت حال رہی:
جب سٹیٹ بینک شرح سود میں ایک فی صد کا اضافہ کرتا ہے تو عوام کی جیب سے 231 ارب روپے اضافی ٹیکس کی صورت میں بینکوں کو ادا کرنے پڑ جاتے ہیں۔ کرنسی میں ایک روپے کی گراوٹ دراصل عوام پر 100 ارب روپے کے اضافی قرض کی صورت میں منتج ہوتی ہے۔ یہاں سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سٹیٹ بینک اور حکومت کی مالیاتی پالیسی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس میں ربط اور ترتیب کا ہونا بہت ضروری ہے۔ چناں چہ آمدن و اِخراجات میں خسارہ جتنا زیادہ ہوگا، اتنا ہی حکومت کو قرض لینا پڑے گا۔ اور جتنا حکومت قرض لے گی، اتنی ٹیکسز کی صورت میں مہنگائی بڑھے گی۔ اور مہنگائی بڑھنے کے عمل کو لگام ڈالنے کے لیے سٹیٹ بینک کو مقامی شرح سود میں اضافہ کرنا ہوگا ، جس کی وجہ سے آمدن و اخراجات میں خسارہ اَور بڑھے گا۔ اسے پاٹنے کے لیے مقامی کرنسی گرائی جائے گی اور مہنگائی کا ایک اَور طوفان آتا رہے گا۔ یہ ایک ایسا گھن چکر ہے، جس میں سے نکلنا ہماری مقتدرہ __ خواہ وہ فوجی ہو یا سویلین __ کے بس کی بات نہیں۔
حکومتِ پاکستان اس وقت 168 تجارتی اور 44 عوامی بہبود کے ادارے چلا رہی ہے۔ سال 2019ء میں ان اداروں نے مجموعی طور پر 4.8 کھرب روپے کا نقصان کیا۔ ان میں سرِفہرستNHA، ریلوے،PIA، بجلی کی کمپنیاں،PTV، ریڈیو پاکستان اور پاکستان پوسٹ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پنشن کے نظام میں خامیوں کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق ایک کھرب روپے سالانہ خرچ ہوجاتے ہیں، لیکن دوسری جانب سٹیٹ بینک نے گزشتہ سال 7 کھرب روپے کا منافع حکومت کو دیا۔ غیرٹیکس آمدن جیسے نجکاری وغیرہ مل کرایک مناسب مجموعہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بشرطیکہ ایسے اداروں کو اور نجکاری کے عمل کو پیشہ وارانہ انداز میں پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
5۔ مہنگائی اور بے روزگاری: مندرجہ بالا تمام اعشاریئے مہنگائی اور بے روزگاری پر منتج ہوتے ہیں۔ گیس اور بجلی کی مدات میں سرکولر قرضے بالترتیب 3.5 کھرب اور 30 کھرب سے تجاوز کرگئے ہیں۔ مندرجہ بالا چیلنجز کے پیشِ نظر آمدہ مالی سال میں 13 کھرب کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے، جن میں سب سے زیادہ بجلی کے نرخوں میں قریباً 35 فی صد اضافے کی صورت میں ہوگا۔ تنخواہوں پر ٹیکس کی زیادہ شرح، تیل، گیس کی قیمت میں اضافہ اور دیگر اشیا پر زیادہ سیلز ٹیکس پر حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملہ طے ہوگیا ہے۔ آمدہ سال کے دوران 31 کھرب روپے کا سود اور اصل زر بینکوں کو واپس کیا جائے گا اور ترقیاتی کاموں پر کم سے کم پیسہ لگایا جائے گا۔ گویا سرمایہ پاکستان کے ضرورت مند نوجوانوں کی جیب میں نہیں، بلکہ طاقت ور مقتدرہ اور سرمایہ داروں کی تجوریوں میں واپس چلا جائے گا۔ ایسے میں کنسٹرکشن پیکیج اور نئے شہروں کو بسانے کے حوالے سے حکومتی حکمتِ عملی مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔
Tags
Muhammad Kashif Sharif
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
Related Articles
معاشی بقا میں آفت زدہ پاکستانیوں کا کردار
اگست 2022ء میں سب مشکل میں تھے۔ ڈالر اور مہنگائی بے لگام تھے۔ آئی ایم ایف سرکار نالاں تھی کہ پاکستان وعدہ خلاف ہے۔ اس تناظر میں سب سانس روک کر بیٹھے تھے کہ کہیں 1.2 ارب …
گھر بنانے کا خواب
پاکستان کی آبادی ہر سال چالیس لاکھ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ برصغیر کے تناظر میں یہ افغانستان کے بعد سب سے زیادہ شرح نمو ہے ۔ایسے ہی شہروں کی طرف نقل مکانی کی سب سے زیادہ …
ڈالر سے محبت ہی بہت ہے؟
پاکستان پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا حجم 410 کھرب روپے کے لگ بھگ ہوچکا ہے۔ ایک سال کے دوران اس میں اوسطاً 30 کھرب روپوں کا اضافہ ہو ہی جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے اخراجا…
عالمی مالیاتی بحران ابھی ٹلا نہیں
ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی، برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے جدید مالیاتی نظام کی بنیاد رکھی تھی۔ مشترکہ سرمائے کی طاقت سے ان کمپنیوں نے برصغیر، مشرقِ بعید اور چین میں سترہویں اور اٹھار…