گزشتہ آیات (-2 البقرہ: 110-109) میں مسلمانوں سے کہا گیا کہ وہ انسانیت دشمن قوموں اور غضبِ الٰہی کے مستحق فرقوں کی منفی عادتوں اور رویوں سے دور رہیں اور پوری یکسوئی کے ساتھ نماز اور زکوٰۃ کا نظام قائم کرکے اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم کریں۔ اور اپنے آپ کو اجتماعی طور پر مضبوط بنانے کے لیے اپنے نظم و ضبط پر توجہ دیں۔
ان آیات (البقرہ: 112-111) میں مسلمانوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ غضبِ الٰہی کے مستحق یہود و نصاریٰ اپنے زوال کی حالت میں خواہشات پر مبنی جھوٹے دعوے کرنے کے عادی ہوچکے ہیں، اُن سے بچنا ضروری ہے۔ سلامتی کا صحیح راستہ یہ ہے کہ خالص اللہ کی طرف متوجہ ہوکر کام کریں، تاکہ خوف زدگی کی حالت سے نکل کر اجرِ الٰہی کے مستحق ہوں۔
(اور کہتے ہیں کہ: ہرگز نہ جاویں گے جنت میں مگر جو ہوں گے یہودی یا نصرانی): یہودیوں کے رہنما بنی اسرائیل کے سامنے ایسے دعوے کرتے رہے ہیں کہ جنت میں انھیں کے فرقے کے لوگ جائیں گے۔ اور نصرانیوں کے رہنما بنی اسرائیل کے سامنے یہ دعوے کرتے تھے کہ صرف ہمارے فرقے کو ماننے والا ہی جنت میں جائے گا۔
قومیں جب سچی کتاب اور اُس کے قوانین پر عمل سے عاری ہو کر سیاسی ذلت اور معاشی زوال میں مبتلا ہوتی ہیں تو اُن میں بے سروپا دعوے فروغ پاتے ہیں۔ تورات اور انجیل میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مؤمنین مخلصین کے لیے جنت اور نافرمانوں کے لیے جہنم کا وعدہ کیا تھا۔ بنی اسرائیل میں جب مفادپرستی پر مبنی فرقہ وارانہ گروہیت پیدا ہوئی تو ہر فرقہ اپنے آپ کو جنتی قرار دیتا۔ اور دوسرے فرقے کو جہنمی قرار دیتا رہا۔ اپنے فرقے سے متعلق لوگوں کو اپنے گروہ کے ساتھ جڑے رہنے کے لیے اس طرح کے بلند وبانگ دعوے کیے جاتے رہے۔ بدقسمتی سے آج مسلمانوں میں بھی اسی طرح کی خواہشات پر مبنی تمنائیں اور آرزوئیں پیدا ہوچکی ہیں (اللہ بچائے، اللہ کی پناہ!)۔
(یہ آرزوئیں باندھ لی ہیں انھوں نے، کہہ دے: لے آؤ سند اپنی اگر تم سچے ہو): یہودیوں کے اس دعوے پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ اُن کی خواہشات اور آرزوئیں ہیں۔ تمنا اور خواہش وہ ہوتی ہے کہ انسان کوئی عمل کیے بغیر اچھے نتائج کی توقع رکھے۔ کسی قوم کے لیے دنیوی اور اُخروی کامیابی اور ترقی کے لیے علم و شعور پر مبنی بلند فکری، حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے عملی منظم قوت اور سیاسی ومعاشی طاقت وقوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب کوئی قوم اس سے ناآشنا ہوکر بے عمل بن جاتی ہے تو پھر ان کے دلوں میں تمنائیں اور آرزوئیں پیدا ہوتی ہیں اور وہ زمینی حقائق سے ناآشنا بڑے بلند بانگ دعوؤں کی عادی ہوجاتی ہیں۔ اور گروہوں میں بٹ کر اپنے اپنے فرقوں کی کامیابی کی خواہش اور تمنا رکھتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسے فرقہ پرست اگر اپنی تمناؤں اور دعوؤں میں سچے ہیں تو کوئی عقلی دلیل پیش کریں۔ ’’بُرہان‘‘ اُسے کہتے ہیں کہ حقائق اور صحیح مقدمات پر مبنی عقلی اور منطقی دلائل پیشِ نظر رکھ کر نتائج پیش کیے جائیں۔ ایسی خواہشات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا، جن کے پیچھے کوئی حقائق نہ ہوں۔ زمینی حقیقت سے ماورا محض رومانویت پر مبنی تمنائیں اور آرزوئیں کسی صورت معتبر نہیں ہیں۔ زوال پذیر قوموں کا یہی المیہ ہوتا ہے کہ وہ حقائق سے آنکھیں چرا کر خواہشات پر مبنی تصورات، نظریات اور مصنوعی عملیات کی عادی ہوجاتی ہیں۔ یوں مزید زوال اور پستی کی حالت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور خواہشات پر مبنی بلند بانگ دعوؤں کی اَسیر قوم کو ذلت سے نکلنے کا راستہ بھی سجھائی نہیں دیتا۔ وہ ایسی ہی لایعنی بھول بھلیوں میں سرگرداں رہتے ہیں۔
(کیوں نہیں، جس نے تابع کردیا منہ اپنا اللہ کے، اور وہ نیک کام کرنے والا ہے، تو اسی کے لیے ہے ثواب اس کا اپنے ربّ کے پاس) حضرت ابراہیم علیہ السلام سے دینِ حنیفی کا آغاز ہوا ہے۔ حنیفی تحریک کا بنیادی قانون یہ ہے کہ جو آدمی مظاہرِ قدرت کی اُلوہیت کے دائرے سے اوپر اُٹھ کر صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کا دل و جان سے فرماں بردار ہوا اور اُس نے اپنے آپ کو خالصتاً اللہ کی طرف متوجہ رکھا، اس کے لیے دُنیوی اور اُخروی انعامات ہیں۔ دنیا کا ماحول بھی اُس کے لیے جنت کا سا ہوتا ہے اور آخرت کی جنت کا انعام بھی اُس کو بڑی وافر مقدار میں اپنے ربّ کی طرف سے اجر کی صورت میں حاصل ہوگا۔ اب ابراہیمی تحریک کا لبادہ اَوڑھ کر کسی بھی طرح کی فرقہ وارانہ گروہیت پیدا کرنا درست نہیں ہے۔ ہر فرقہ اور گروہ اس بنیادی قانون کو نظرانداز کرکے محض تمنائیں اور آرزوئیں پالے تو وہ کیسے دنیا اور آخرت کی ترقی حاصل کرسکتا ہے۔
(اور نہ ڈر ہے ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے): دنیا اور آخرت کی کامیابی یہ ہے کہ انسان خوف اور غم کی حالت سے نکل کر امن اور خوش حالی کی حالت میں داخل ہوجائے۔ جو قوم سیاسی طور پر خوف زدگی کی حالت میں رہے، یا اپنی اجتماعی طاقت اور قوت سے محروم ہو کر بداَمنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو اور طاغوتی قوتیں اُن پر ظلم ڈھاتی رہیں، تو وہ کیسے دنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔ اسی طرح جو قوم معاشی حوالے سے غم واندوہ میں ڈوبی ہوئی ہو، افلاس نے اُن کا گھیراؤ کیا ہوا ہو تو وہ غموں کا اسیر بنا دیتی ہے۔ اس سے نکلنے کا ایک واحد راستہ یہ ہے کہ اللہ کے بیان کیے ہوئے سیاسی اور معاشی نظام کے مطابق اپنی اجتماعی طاقت اور قوت پیدا کرکے کام کیا جائے تو ایسی جماعت کے لیے دنیا میں نہ سیاسی طور پر خوف زدگی کی حالت ہوگی، بلکہ دشمن کے مقابلے پر کام کرنے کی جرأت اور ہمت پیدا ہوگی۔ اور نہ ہی معاشی طور پر غمگینی اور مسکینی کی صورت میں مبتلا ہوگا۔ دنیا کی جنت بے خوفی پر مبنی سیاسی امن اور غموں سے پاک معاشی خوش حالی سے حاصل ہوتی ہے اور آخرت کی جنت میں بھی انسان ہر خوف سے آزاد اور ہر غم سے پاک ہو کر جنت کی راحت پائے گا۔
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
عیدالاضحیٰ کے دن کی تاریخی اہمیت
۱۰؍ ذوالحجہ ۱۴۴۱ھ / یکم؍ اگست 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ لاہور میں خطبہ عید الاضحی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’&rsqu…
دشمن کے منفی رویوں کو سمجھنا اور نظم و نسق کی پابندی
گزشتہ آیات (البقرہ: 104 تا 107) میں یہ واضح کیا گیا کہ بنی اسرائیل کے یہودی اس حد تک انحطاط، ذلت اور غضبِ الٰہی کے مستحق ہوچکے ہیں کہ اب اُن کا تحریف شدہ دین منسوخ کیا…
تہذیبِ نفس کے عہد و میثاق کی خلاف ورزی
گزشتہ آیات (البقرہ: 80-82) میں یہودیوں کی تحریفات، ظنون و اَوہام اور ظلم و فساد کا تذکرہ تھا۔ اس آیتِ مبارکہ (البقرہ: 83) سے یہ حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ بنی اسرائیل کو …
جھوٹی آرزوؤں پر مبنی معاشروں کا زوال
(اور بعض ان میں بے پڑھے ہیں کہ خبر نہیں رکھتے کتاب کی‘ سوائے جھوٹی آرزوؤں کے، اور ان کے پاس کچھ نہیں، مگرخیالات۔) (-2البقرہ: 78) گزشتہ آیات میں یہودی علما کی …