

نبویؐ منہج کے مطابق نظامِ حکومت
ہم نے گزشتہ اقساط میں تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ واضح کیا تھا کہ خلافتِ راشدہ، خلافتِ اُمویہ اور خلافتِ عباسیہ کے ادوار میں ایک ہی نظام تھا۔ مجموعی طور پر اسلامی نظامِ حکومت تھا۔ یہ ادوار انتہائی خیروبرکت کے ادوار تھے، جن میں امن و امان کا قیام، غیرمسلموں کے حقوق کی نگہداشت، اسلام اور مسلمانوں کے حقوق و عزت و ناموس کی حفاظت، اسلامی شان و شوکت کا ظہور، علوم کی ترویج واشاعت، خصوصاً سائنسی علوم میں نئی نئی دریافتیں اور ایجادات، دینی علوم میں احادیثِ رسولؐ کی جمع وتدوینِ فقہ، فتوحات کی کثرت، ان تمام محاسن وبرکات کا ظہور انھی ادوار میں ہوا، جن کا اجمالی تذکرہ ہم ’’اسلامی دور کی ناقابلِ فراموش شخصیات‘‘ کے عنوان کے تحت کرچکے ہیں ۔ اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ اسلام کا نظامِ حکومت ایک ہزار سال سے کچھ زائد عرصے تک اپنی پوری تابانی ودرخشانی کے ساتھ عملاً قائم و دائم رہا۔
انگریز کی غلامی کے زمانے میں قائم یہ تصور کہ اسلامی نظام بس تیس سال تک قائم رہا، پھر ملوکیت کا آغاز ہوگیا، یہ مؤقف دشمنوں کا پھیلایا ہوا ہے اور تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ بنواُمیہ اور بنوعباس کے ادوارِ حکومت میں لوگوں میں مذہبی جوش وجذبہ موجود تھا۔ قرآن و سنت کے علاوہ کوئی قانون وفرمان ان کے لیے واجب التعمیل نہ تھا۔ خلیفہ اہم اُمور میں اربابِ حل و عقد سے مشاورت کرتے تھے۔
خصوصاً بنواُمیہ کے دور میں حکمرانوں میں سادگی تھی۔ ایک عام آدمی کی بھی خلیفہ تک رسائی ممکن تھی۔ اس بدوی کی طلاقتِ لسانی کو خلیفہ کا رُعب کم نہیں کرسکتا تھا۔ خلیفہ جس طرح عالم اسلام کا فرماں روا ہوتا، اسی طرح وہ عالمِ اسلام کا سپہ سالارِ اعظم بھی ہوتا، بلکہ وہ مذہبی پیشوا اور نمازوں کا امام بھی ہوتا۔ گویا امامتِ صغریٰ اور امامتِ کبریٰ ایک خلیفہ کی ذات میں جمع تھی، البتہ جب کبھی کسی دینی مسئلے میں رہنمائی کی ضرورت ہوتی تو وہ علما وفقہا سے دریافت کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتا۔
خلافت کے زیرِانتظام صوبوں میں عامل (گورنر) مقرر کیے جاتے اور دربارِ خلافت سے قاضی بھی مقرر ہوتے۔ گورنر کا کام ملک میں امن وامان قائم کرنا، ملکی سرحدات کی حفاظت کے لیے بروقت تیار رہنا، رعایا کے حقوق کی نگہداشت کرنا اور ملکی محاصل وصول کرنا اور انھیں صحیح مصارِف پر خرچ کرنا ہوتا تھا، جب کہ قاضی کا کام لوگوں کے باہمی جھگڑوں کو نمٹانا ہوتا تھا۔ غرض یہ کہ بنواُمیہ اور بنوعباس کی حکمرانی میں رعایا عدل و انصاف کی وجہ سے خوش حال وفارغ البال تھی۔ عام رعایا پر کسی طرح کا نامناسب ٹیکس نہیں تھا۔ یہی خوبیاں ، محاسن اور خصوصیات‘ اسلامی نظامِ حکومت کی ہوتی ہیں ۔
اب ہم اگلی اقساط میں خلافتِ عثمانیہ کے دور کے چیدہ چیدہ واقعات اور اس دور کے مشاہیر کا ذکر کریں گے۔ ان شاء اللہ۔
Tags

Mufti Muhammad Ashraf Atif
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔
Related Articles
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد قریش کے چند مشہورِ زمانہ سخی افراد میں سے تھے۔ آپ کی والدہ عاتکہ بنت عامر کنانیہ تھیں، جن کا تعلق معزز قبیلہ بنوفراس …
خلافتِ راشدہ کے نظام میں وسیع تر بامعنی مشاورت اور آج کی جمہوریت
وطنِ عزیز کی سیاست اپنے روز ِقیام ہی سے مختلف نعروں سے عبارت رہی ہے، جیساکہ ہم نے گزشتہ ماہ کے شذرات میں یہاں اسلامی نظام کے نمائشی نعروں کے برعکس چند سنجیدہ گزارشات …
ابو عمارہ، سیّدِ شہدا ء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ
ابو عمارہ، سیّدِ شہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ مہاجرینِ اوّلین میں سے ہیں۔ آپؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا، رضاعی بھائی اور آپؐ سے صرف دو سال بڑے تھے، گویا آپؐ کے ہم عمر تھے۔ حضرت ح…
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …