سیّدنا حضرت حسنؓ اور سیّدنا حضرت امیر معاویہؓ کے درمیان صلح سے حضوؐر کی وہ پیشین گوئی سچی ہوئی، حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ میں نے سیّدنا ابو بکرہؓ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر دیکھا کہ سیّدنا حسنؓ آپؐ کے پہلو میں تھے۔ کبھی آپ ؐ مجمع کی طرف دیکھتے اور کبھی ان کی طرف اور فرماتے: ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے۔ عنقریب اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کروائے گا‘‘۔ (صحیح بُخاری، کتابُ الصّلح، حدیث: 2704) چناں چہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت حسنؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے درمیان صلح ہوئی، جو اُمت کے لیے باعثِ افتخار اور برکت بنی۔ اس صلح کی وجہ سے اس سال کا نام ’’عام الجماعہ‘‘ رکھا گیا۔ بعض مؤرخین اس صلح کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں کہ جس سے اس عظیم عمل کی عظمت ماند پڑ جاتی ہے۔ ایسے نام نہاد مؤرخین نے اس عظیم کارنامے کو کس طرح گہنانے کی کوشش کی ہے، بلکہ اَسلاف کی محبت جو ہرمسلمان کے دل میں ہونی چاہیے، اس کو دلوں سے نکالنے کی سعیٔ نا مشکور کی ہے۔
اس عظیم عملِ صلح کے لیے حضرت امیر معاویہؓ نے جن دو بزرگوں کو حضرت حسنؓ کے پاس بات چیت کے لیے بھیجا اور صلح کے پورے اختیارات دیے تھے کہ جن شرائط پر چاہیں صلح کر لیں، ان بزرگوں میں ایک حضرت عبد اللہ بن عامر بن کُریزؓ ہیں۔ انھیں کا اجمالی تعارف مقصود ہے۔ عبد اللہ بن عامرؓ اپنے والد کی طرف سے عبدِ شمس بن عبدِ مناف کی اولاد سے ہیں اور ماں کی طرف سے ہاشمی ہیں۔ آپؓ کی دادی کی والدہ بیضا بنت عبدالمطلب ہیں، جو آپؓ کی پھوپھی ہوتی ہیں۔
جب سیّدنا عبد اللہؓ پیدا ہوئے تو ان کو نبی کریمؐ کی گود میں بٹھایا گیا تو آپؐ نے ان کے والد سیّدنا عامر بن کریز سے فرمایا کہ: ’’یہ بچہ تو تم سے زیادہ ہم پر گیا ہے‘‘۔ پھر آپؐ نے اپنا لعابِ دہن ان کے منہ میں ڈالا، جسے وہ چوسنے لگے تو آپؓ نے فرمایا: ’’یہ بچہ لوگوں کی پیاس بجھانے والا ہوگا‘‘۔ چناں چہ سیّدنا عبد اللہؓ کے بارے میں معروف ہے کہ یہ پانی کے لیے جہاں سے بھی زمین کھودتے، پانی نکل آتا۔ آپؓ نے عرفات میں حاجیوں کے لیے حوض بنوائے اور چشموں کا پانی ان میں بھروایا۔ اس کے علاوہ آپؓ کی سیاسی خدمات اس قدر ہیں کہ رہتی دنیا تک اُمت آپؓ پر فخر کرے گی۔ ایران کی فتح کی تکمیل آپؓ کے ہاتھوں ہوئی۔ آپ ہی کے ہاتھوں ساسانیوں کا آخری بادشاہ یزدگرد مارا گیا۔ آپ کی فتوحات کا سلسلہ حضرت امیرمعاویہؓ کے زمانے تک جاری رہا۔
دوسری شخصیت جو سیّدنا حسنؓ کے پاس صلح کے لیے بھیجی گئی، وہ حضرت عبد الرحمن بن سمرہؓ ہیں۔ ان کی بھی بڑی لازوال خدمات ہیں۔ سیّدنا عبد اللہ بن عامرؓ کے زیرِ کمان کابل تک کا علاقہ انھوں نے فتح کیا۔ان دو حضرات کا بہت بڑا شرف ہے کہ اہلِ ایمان کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرا کے دنیا و آخرت میں سُرخرو ہوئے۔
Tags
Mufti Muhammad Ashraf Atif
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔
Related Articles
یورپ میں بنواُمیہ کی فتوحات اور علوم و فنون کی ترقی
تاریخ میں بنواُمیہ کا دورِ حکومت سیاسی اور دینی وحدت کے اعتبار سے سنہری اور فتوحات کا دور تھا۔ اُموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں موسیٰ بن نُصَیرافریقا کے گورنر تھے۔ طارق…
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …
بنواُمیہ اَندلُس میں
عبدالرحمن الداخل نے اندلس پر نہ صرف عظیم الشان اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی، بلکہ ایک ایسی تہذیب کی بنیاد ڈالی، جو قرونِ وسطیٰ میں دنیا کی معیاری تہذیب کی حیثیت سے تسلیم کی …
اَندلُس کے علما و سائنس دان ؛شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی ؒ
بارہویں صدی عیسوی کے عبقری انسان، عظیم فلسفی، مفکر، محقق، صوفی، علوم کا بحرِ ناپیدا کنار، روحانی و عرفانی نظامِ شمسی کے مدار، اسلامی تصوف میں ’’شیخِ اکبر‘…