سورت البقرہ کی آیت 102 (حصہ اوّل) میں بنی اسرائیل نے شیطانی قوتوں سے انسان دشمن علم سیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کیا ہوا تھا، جو سراسر غلط اور خلافِ حقیقت ہے۔ انبیا علیہم السلام اس طرح کے پست علوم نہیں سکھاتے۔
اسی آیت کے اس دوسرے حصے میں ایسے ساحرانہ علوم اور مخلوط افکار و خیالات کے انسانی سوسائٹی پر پڑنے والے بُرے اثرات کی نوعیت واضح کی جا رہی ہے:
﴿فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ﴾
(پھر ان سے سیکھتے وہ جادو جس سے جدائی ڈالتے ہیں مرد میں اور اس کی عورت میں) :
بنی اسرائیل کے لوگ شیاطین اور فرشتوں دونوں سے مِلا جُلا کر جادو کا ایسا علم سیکھتے تھے کہ جس سے خاندانی نظام میں میاں بیوی کے درمیان افتراق و انتشار پیدا ہوتا تھا۔
انسانی معاشرے کی بنیادی اکائی خاندانی نظام ہے اور اس کی اَساس میاں بیوی کے درمیان باہمی محبت اور تعلق پر ہے۔ دونوں کے تعلقات درست ہوں تو اولاد کی پرورش، خاندانی رشتوں کے درمیان باہمی احترام، رشتہ داروں کے حقوق اور سوسائٹی میں موجود دیگر خاندانوں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار ہوتے ہیں، لیکن جس سوسائٹی میں میاں بیوی کے جھگڑوں کے نتیجے میں فیملی سسٹم تباہ و برباد ہوجائے، وہ معاشرہ اپنی اجتماعی زندگی میں منتشر ہو کر بکھر جاتا ہے۔ اس کی سیاسی اور معاشی طاقت باہمی اختلافات کا شکار ہو کر ختم ہوجاتی ہے۔ انبیا علیہم السلام کی سچی تعلیمات انسانوں کو دنیا اور آخرت میں زندگی بسر کرنے کا صحیح سلیقہ اور طریقہ سکھاتی ہیں۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسولوں نے میاں بیوی کے باہمی حقوق کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
انبیا علیہم السلام کی تعلیمات کے برعکس سِفلی علوم و افکار، شیطانی تگ و تازپر مبنی اعمال، انسانوں کے درمیان خود غرضی، مفاد پرستی اور نفسانی خواہشات کو اُبھار کر انسانی اجتماعیت کو توڑنے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں شیطانِ اکبر ابلیس سمندروں پر اپنا تخت بچھا کر اپنے شطونگڑوں کو انسانوں کے درمیان لڑائی جھگڑوں اور انھیں گناہوں میں مبتلا کرنے کے لیے بھیجتا ہے۔ جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایک شیطان‘ ابلیس سے کہتا ہے: ’’مَا تَرَکْتُہُ حَتّٰی فَرَّقْتُ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ امْرَأَتِہِ، قَالَ: فَیُدْنِیہِ مِنْہُ، وَیَقُولُ: نِعْمَ أَنْتَ‘‘۔ (صحیح مسلم، حدیث: 7106) (میں نے اس شخص کو (جس کے ساتھ میں تھا) اس وقت تک نہیں چھوڑا، یہاں تک کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق کرادی۔ ابلیس اس کو اپنے قریب کرتا ہے اور کہتا ہے: تم سب سے بہتر ہو۔)
﴿وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ ﴾ اور وہ اس سے نقصان نہیں کرسکتے کسی کا بغیر حکم اللہ کے۔ اور سیکھتے ہیں وہ چیز جو نقصان کرے ان کا، اور فائدہ نہ کرے):
بنی اسرائیل کی مزید خرابی بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ انسانیت کو نقصان پہنچانے والے علوم و افکار سیکھنے کی طرف بڑی توجہ کرتے تھے۔ ایسے پست علوم کسی صورت انسانیت کے نفع اور بھلائی کے نہیں ہوتے۔
حضرت شیخ الہندؒ فرماتے ہیں: ’’سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے علموں سے آخرت کا کچھ نفع نہیں، بلکہ سراسر نقصان ہے اور دنیا میں بھی ضرر ہے اور بغیر حکم خدا کے کچھ نہیں کرسکتے اور علم دین اور علم کتاب سیکھتے تو اللہ کے ہاں ثواب پاتے‘‘۔
انسانی معاشروں میں جب فکری اور عملی گمراہیاں پیدا ہوجاتی ہیں تو اُن کا علمی مزاج بھی بگڑ جاتا ہے۔ ان کے پیش نظر انسانیت کو نقصان پہنچانے والے علوم سیکھنا سکھانا اور غلامی پر مبنی نظامِ تعلیم و تربیت کو قبول کرلینا ہوتا ہے۔ سامراجی اور طاغوتی قوتوں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ انسانوں کو غلام رکھنے کے لیے اپنے مطلب کے غلط افکار و خیالات پر مبنی نظامِ تعلیم بناتے ہیں اور اس طرح معاشروں میں افتراق و انتشار پیدا کرکے ڈیوائڈ اینڈ رول (لڑاؤ اور حکومت کرو) کی سیاست کو فروغ دیتے ہیں۔
﴿وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴾ (اور وہ خوب جان چکے ہیں کہ جس نے اختیار کیا جادو کو، نہیں اس کے لیے آخرت میں کچھ حصہ، اور بہت ہی بُری چیز ہے، جس کے بدلے بیچا انھوں نے اپنے آپ کو، اگر ان کو سمجھ ہوتی) : حضرت شاہ محمداسماعیل شہیدؒ اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ: ’’یہودیوں نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علوم کو پس پشت ڈال دیا اور شیطانوں اور فرشتوں سے ایسے زائد علوم حاصل کرنے میں لگ گئے، جن کا آخرت کی کامیابی میں کوئی عمل دخل نہیں تھا‘‘۔ (ایضاح الحق الصریح)
یہ حقیقت بنی اسرائیل کے لوگ جان چکے کہ انھوں نے الٰہی تعلیمات پر مبنی بلند علوم و افکار کے بدلے میں جادو وغیرہ پر مبنی ایسے پست افکار و خیالات خرید لیے ہیں، جن کا دنیا اور آخرت میں کوئی فائدہ نہیں۔ اس طرح انھوں نے اپنے لیے بہت ہی بُرا سودا کیا ہے۔ جو معاشرے ترقی کن بلند علوم و افکار کو قبول نہیں کرتے اور سطحی مفادات کے لیے سِفلی علوم اور گروہی مفادات پورا کرنے کی طرف اپنے ذہنوں اور خیالات کو متوجہ کرلیتے ہیں تو اس طرح نفع کا سودا کرنے کے بجائے اجتماعی نقصان اُٹھاتے ہیں۔
﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ﴾ (اور اگر وہ ایمان لاتے اور تقویٰ کرتے تو بدلہ پاتے اللہ کے ہاں سے بہتر اگر ان کو سمجھ ہوتی): حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ کتابِ الٰہی کے اعلیٰ علوم پر پختہ ایمان و یقین رکھتے اور اللہ سے ڈر کر عدل و انصاف قائم کرنے کی جدوجہد اور کوشش کرتے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا اور آخرت میں بہت اچھا بدلہ پاتے۔ اُن کے لیے دنیا میں بھی خیر اور بھلائی کا نظام قائم ہوتا اور آخرت میں بھی خیر کے اعلیٰ مقام جنت الفردوس میں داخل ہوتے۔ کاش کہ ایسی پستی میں پڑے ہوئے لوگوں کو یہ حقیقت سمجھ میں آجاتی اور بلند افکار و خیالات پر مبنی علم و شعور حاصل کرکے الٰہی تعلیمات کا علمی اور عملی نظام قائم کرتے اور دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوتے۔
Tags
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
افتتاحی تقریب ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور، پشاور کیمپس
اِدارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کا 2001ء سے شروع ہونے والا سفر کراچی، سکھر، صادق آباد، ملتان اور راولپنڈی کی منزلیں طے کرتا ہوا پشاور آ پہنچا ہے! الحمدللہ علیٰ ذالک…
ترقی یافتہ سرمایہ دار
گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی وزیراعظم نے آمدہ سال کو ترقی کا سال قرار دیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ صنعتی پیداوار، بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر اور برآمدات میں اضافہ بتایا جارہا ہے۔ ا…
ابو عمارہ، سیّدِ شہدا ء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ
ابو عمارہ، سیّدِ شہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ مہاجرینِ اوّلین میں سے ہیں۔ آپؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا، رضاعی بھائی اور آپؐ سے صرف دو سال بڑے تھے، گویا آپؐ کے ہم عمر تھے۔ حضرت ح…
شائقینِ علومِ ولی اللّٰہی کے لیے عظیم خوش خبری
رحیمیہ مطبوعات لاہور کی طرف سے شائقینِ علومِ ولی اللّٰہی کے لیے عظیم خوش خبری تصنیفاتِ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تحقیق و شرح کے ساتھ عمدہ اشاعت حضرت اقد…